Beruflich Dokumente
Kultur Dokumente
اب بچہ تھوڑا سا ناراض هو یا کچھ ضد کرے تو ماں باپ سموسے پکوڑے پراٹھا یا شوارمہ کھلنے کی آفر کرتے
ہیں
دس بیس روپے تو مسلہ هی نہیں
پہلے محلے بستی کا یا اپنا کوئی بڑی عمر کا عزیز و رشتہ دار بچے کو ڈانٹتا یا کسی بد تہذیبی یا شرارت پر مار
بھی لیتا تو ماں باپ ساتھ ہوکر کہتے کہ
"اچھا کیا ہے"
اب کوئی ایک هی چھت کے نیچے کسی کے بچے کو ہاتھ بھی لگا لے تو گھر میں کوؤں کیطرح "کاں کاں" شروع
ہوجانا یقینی امر ہے
پہلے دور میں جب بچہ گھر میں پکے کسی سالن کو نہیں کھاتا تھا تو ماں دوڑ کر ساتھ والے گھر سے سالن مانگ
کر اس طرح لتی تھی کہ جیسے اپنے هی گھر کی ہانڈی سے لی جاتی ہے
اب بچے کو راضی کرنے کے لیے خود هی پیسے دے کر ہوٹل پر بھیجا جاتا ہے کہ جاؤ اور ہاف پلیٹ سالن ل کر
روٹی کھا لو
مجھ سے نہیں مانگا جاتا کسی کے گھر سے )حالں کہ وہ کسی کے گھر والے سارے اپنے تائے مامے چاچے ہوتے
ہیں پڑوس میں (
بیس سال پہلے تک بچے والدین کے کہنے پر شرما شرما کر شادی کرتے تھے
اج اکثر والدین بچوں کے کہنے پر انکی شادیاں کرواتے پائے جاتے ہیں
بیس سال پہلے تک لوگ سادا ہوتے تھے مگر خاندانی معاملت میں اپنی عورتوں پر رعب دهبکا اور کنٹرول
رکھتے تھے
عورت بھی اپنے شوہر کا اخترام کرتی تھی
آج بیس سال بعد ماڈرن پڑهے لکھے زمانے میں اس معاملے میں کنگا الٹا بہتی نظر آتی ہے
"اور شوہر چھپ کر یہ کہتا پایا جاتا ہے کہ "مجھ سے ناراض نا ہونا ۔۔۔میری نہیں سنتی
بیس سال پہلے تک انپڑه حضرات بھی کسی نا کسی جگہ صاحب روزگار ہوتے تھے
آج اچھی بھلی تعلیم کے زیور سے لیس افراد اکثر بے روز گار نظر آتے ہیں
ساری وجہ حکومتی بیروزگاری هی نہیں بلکہ ہڈ حرامی بھی ہے
بیس سال پہلے تک کسی کے گھر میں آئے ہوۓ مہمان کو یہ سننے کو نہیں ملتا تھا کہ روٹی کھانی ہے؟
"بلکہ کھانا سامنے پیش کر کے کہا جاتا تھا " ہاتھ دهو لو اور روٹی کھا لو
آج اچھا بھل بھوک سے نڈهال مہمان بھی "روٹی کھانی ہے؟"کے عز ت
ت نفس کے خود کش مرحلے سے گزارا جاتا
اہے ال ماشاء ا
بیس سال پہلے تک کسی کا مریض ہاسپیٹل ئز ہوتا تو لوگ تیمارداری کرنے جاتے تو اپنے گھر سے ساتھ میں کھانا
بنوا کر اور دوده بھی پکڑ کر ہاسپیٹل جاتے
آج اول تو بیماری والوں کی طرف سے کھانا پانی چائے پلئی جانے لگی ہے
دوئم کوئی کم هی گھر سے کچھ ساتھ لے جاتا ہے بس بازار سے کوئی بوتل پکڑ لی جاتی ہے یا جوس کا ڈبہ
یا پھر حد درجہ فروٹ وغیرہ