Beruflich Dokumente
Kultur Dokumente
دائیں سے بائیں پہلی تصویر پتھر پر کھدی ہو ئی لکھائی ،دوسری تصویر قدیم سو مری زبان کی لکھائی اور تیسری تصویر قدیم پیپرس کے
کا غذ پر ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریرہے جو ہا ورڈ یو نیورسٹی میں محفوظ ہے۔
قدیم آ سمانی صحیفے ابتداء میں بھیڑ کی کھال اور پتھروں پر کھدائی کر کےلکھے جاتے
تھے۔ اس کے عالوہ لوگ انہیں حفظ کر کے انسا نی یا د داشت میں بھی محفوظ کر لیتے
عیسی علیہ السالم کی والدت سے چار ہزار سال قبل) (fourthٰ تھے۔ حضر ت
millennium BCEجب قدیم مصر میں پا نی کے پو دے پیپرس کے گو دے سے بنائے
گئے پیپرس کے اوراق )(papyrus sheetsکی ایجاد ہوئی تو یہ صحیفے اور ان کے بعد
آ نے والی آ سمانی کتا بیں با قا عدہ پیپرس کے اوراق پر لکھ کر محفوظ کی جا نے
لگیں۔نزول ِ قر آن کے وقت تک لکھائی کے لئے اوراق بنا نے کی صنعت اتنی ترقی کر
چکی تھی کہ چین کا تیار کردہ کا غذ عرب کے تجا رتی ذرا ئع سےنا صرف بحیرہ عرب
بلکہ یو نان اور روم تک جا تا تھا ۔جس سے ثابت ہو تا ہے کہ قر آنی آ یات کو جا نو روں
کی کھال ،پتھر ،درختوں کی چھال اور ہڈیوں کے ٹکڑوں پر لکھ کر محفوظ کر نے کی
ضرورت نہ تھی ۔ اور اگر ۲۴۰۰ قبل مسیح میں لکھی ہو ئیں پا نچویں خا ندان (Fifth
) Dynastyکے باد شاہ نفر تیتی الکا کائی ) (Nrfertiti Kakaiکے کھا توں )(accounts
کی مجلد کتا بیں آ ثا ر ِ قدیمہ کے عجا ئبات میں آج بھی محفوظ ہیں تو کو ئی وجہ نہیں کہ
قر آن بھی اپنے ابتدائی دور سے ہی مکمل کتا بی شکل میں مو جود نہ ہو۔
1500سال قبل زما نہ نزول ِ قر آن سے پہلے ہا تھ سے لکھی ہو ئی با ئبل کی یہ مکمل کتاب ترکی کے
دار الحکومت انقرہ کے عجا ئب گھر میں محفوظ ہے۔
سی علیہ السالم تک نا زل ہو نے دو سری صدی قبل مسیح میں یہو دیوں نے حضرت مو ٰ
والے عہد نا مہ قدیم کے سب صحیفوں اور کتا بوں کو اکٹھا کر کے اس مجمو عے کو مقدس
با ئبل ) (Holly Bibleیعنی کتاب المقدس کا نام دیا ۔چو نکہ عہد نا مہ قدیم کے عنوا ن ِ
بعینہ جاری رہے اس لئے بعد میں ان دو نوں ٖ ہائے عہد و تکمیل عہد نا مہ جدید میں بھی
عہد نا موں کو مال کر ان کا مو جو دہ نام بھی بائبل ہی رکھا گیا ۔جس کو یہو دی اور عیسائی
دو نوں ہی خدا کے مقدس الفاظ مانتے ہیں مگر نظر یات میں اختالف کی وجہ سے یہو دی
با ئبل کے اپنے حصے کا تر جمہ اور تفسیر الگ کر تے ہیں اور عیسائی الگ۔ دنیا کی
تہذیب و تمدن میں تر قی اور تبدیلی کے پیش ِ نظر عہد نا مہ قدیم کی کتا بیں عبرانی
)(Hebrewاور ارامی) (Aramaicزبا نوں میں نازل ہو ئیں اور عہد نامہ جدید کی کتا
بیں عبرا نی اور یو نانی ) (Greekزبان میں لکھی گئیں۔
سی علیہ السالم کی پر ورش اور تر بیت شا ہی گھرا نے میں ہو نے کی وجہ حضرت مو ٰ
سے انہیں عبرا نی ) (Hebrewاور مصری زبا نیں بو لنے اور لکھنے پڑ ھنے میں مہا
رت حا صل تھی ۔ ارامی ) (Aramaicزبان انھوں نے اپنی والدہ سے سیکھی جو ان کی
سی علیہ السالم کو قدیم سودائی بن کر ان کے ساتھ ہی رہتی تھیں۔ اس کے عالوہ مو ٰ
مری ) (Sumerianزبان میں بھی خصو صی ملکہ حا صل تھا جو لکھنے میں ر یا ضی یا آج
کے کمپیو ٹر کوڈ سے ملتی جلتی زبان ہے ۔ اس میں ۱۰۰۰ ،۲اور ۵۰کے مضا عف
) (multipleکو خا ص تر تیب میں لکھ کر حروف کی بجا ئے ہند سوں سے عبا رت مکمل کی
جا تی ہے۔ ان سبھی زبا نوں کی مثا لیں عہد نا مہ قدیم کے اصل متن میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
سی علیہ السالم سے پہلے اور ان کے زما نے میں مندر جہ باال زبا نیں رائج تھیں اس
چونکہ مو ٰ
یعنی یہودیوں کی با ئبل جسے تنخ بھی کہا جا تا لئے متن کے اعتبار سے عہد نامہ قدیم
ہےعبرانی اور ارامی زبا نوں میں ہے جو ابتداء میں ۲۴کتا بوں اور تین حصوں پر مشتمل تھی
جس میں پہلی پا نچ کتابیں ابتداء ،خروج ،احبار ،گنتی یا اعداداور استثنا تورات ) (Torahکی
ہیں۔پھر انبیاء میں ایوب ،یشوع ،سیموئیل ،یسعیاہ ،یرمیاہ ،حزقیال ،ہوسیع ،حبقوق ،زكریا،
مالخي ،دا نیال ،نحمیاہ ،عزیر ،قضات اور اس کے بعد اسفا ر الکتابا ت میں زبور ) (Psalmsیعنی
حمد ،ضرب اال مثال ،غزل یا نغمہ ِ ِ سلیمان ،روتھ (Ruth) ،یعنی رحمة اور واعظ
شامل ہیں۔ عہد نا مہ جدید کے نزول کےبعد عہد نا مہ قدیم میں عبرا نی زبان کی کتا بیں جویل ،
عاموس ،عبدیاہ ،یونس ،البعثة ،حجي ،صفنیاہ اور ناحوم بھی شا مل کر لی گئیں۔
عہد نا مہ جدید) (New Testamentکا اصل مسو دہ کچھ عبرا نی مگر ذیادہ تر یو نا نی
)(Greekزبان میں ہے جس کے تین حصوں میں ۲۷کتا بیں شا مل ہیں۔پہلے حصے میں چار
وہیت اناجیل یعنی متی ،عالمت)،(Markلو قا اور یو حنا کے ساتھ انبیا ء کے اعمال یا قوا
نین)(Actsکو شامل کیا گیا ہے۔دوسرے حصے میں ۲۱خطوط) (Epistlesاورکتاب
الوحی) (Revelationشامل ہے ۔ چھٹی اور سا تویں صدی تک عیسا ئیوں کے عہد نامہ جدید کی
کتا بوں کی فہرست میں سینٹ بر نا با کی انجیل )(Gospel of Barnabasبھی شامل تھی جو بعد
میں مسلما نوں کی سا زش سمجھ کر عہد نا مہ جدید کی کتا بوں کی فہرست سے نکال دی گئی۔یہ
عیسی علیہ السالم کے ہو نہا ر شا گرد سینٹ بر نا با کی وہ انجیل تھی جس میںٰ حضرت
عیسی علیہ السالم کے بعد بنی ِ آ خر الزماں حضرت محمد ﷺ کے نام ‘احمد ‘ﷺ کے ساتھٰ حضرت
عیسی علیہ السالم کے بعد نبی ہوں گے۔ یہ حوا لہ جات انجیل سے ٰ یہ حوالہ جا ت تھے کہ وہ
خا رج نہیں کئے گئے بلکہ مو جو ہ چا روں انا جیل میں ان آ یات کے ترا جم سے نبی ِ کریم
ﷺ کا نام ' احمد' نکال کر اس کی جگہ ان کے نام کے معا نی لکھ د ئیے گئے ہیں مگر چو
نکہ عربی میں سب سے پہال تر جمہ سینٹ بر نا با کی انجیل سے کیا گیا تھا اس لئے انجیل
کے عربی ترا جم کی مز کو رہ آ یات میں ' احمد' ہی لکھا ہوا ہے جو مطا لعہ کے لئے
اب بھی مو جود ہے۔
ری نے ان کتا بوں کے تراجم اصل متن کے سیاق و سبا ق سے ہٹ کر اپنے یہو دو نصا ٰ
ذ اتی خیا الت اور نظر یاتی مقا صد کو پیش ِ نظر رکھ کر کئے ہیں جو بہت سی جگہوں پر
اصل وحی کی آ یات کے متن سے مطا بقت نہیں رکھتے۔جس کی وجہ سے عیسائی اور یہو
د ی نظر یا تی طو ر پر مسلما نوں سے دور ہو نے کے ساتھ ساتھ آ پس میں بھی بہت
سے فر قوں اور عقا ئد میں بٹے ہو ئے ہیں۔ تا ہم مو جو دہ دور کے تعلیم یا فتہ ،وسیع
النظر اور غیر جا نب دار یہو دی اور عیسائی یہ تسلیم کر نے لگے ہیں کہ ان کی کتا بوں
کے ترا جم غلط ہیں جو یقینا ً مثبت تبدیلی کے رجحان کا عندیہ ہے۔بعض لو گوں کے
خیال میں ان ک تا بوں کا علمی مطا لعہ اور غو رو خو ض کے ساتھ تجزیہ کر نا اشد ضرو
ری ہے تا کہ ترا جم میں غلطیوں کی نشان دہی کر کے انہیں وحی کے متن سے درست کیا
جا سکے مگر کلیسا) (Churchاوركنس() Synagogueابھی اس بارے میں خا موش ہیں۔ تا
ریخ گواہ ہے کہ وقت کبھی بھی ایک جیسا نہیں رہا ۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب کلیسا نے
سینٹ جیروم کے چو تھی صدی عیسوی میں عبرا نی اور یو نا نی سے کئے گئے با ئبل
کے ال طینی زبان میں تر جمے کے عال وہ کسی اور زبان میں تر جمہ کر نے پر سخت پا
بندیاں عائد کر رکھی تھی اور سو لہویں صدی ع یسوی تک عام آ دمی کے لئے مز کو رہ
ال طینی تر جمہ بھی کلیسا سے پیشگی اجا زت لئے بغیر پڑ ھنا منع تھا ۔ اگر وہ وقت نہیں
رہا تو یہ وقت بھی نہیں رہے گا اور اصلی متن کے لحا ظ سے تر جمہ کر نے میں حا ئل
کلیسا و کنس کی رکا و ٹیں بھی ختم ہو جا ئیں گی ۔ انفرا دی طو ر پر لوگ ان کتا بوں
کے اصل متن سے تر جمہ اب بھی کر تے ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اس تر جمے کو
کلیسا تسلیم نہیں کر تا۔
) (Pentateuchجو بارہویں اور تو رات ) (Torahیعنی عہد ِ عتیق کے پا نچ صحیفے
موسی علیہ السالم کے دور حیات میں مو جود تھے میں حضرت ٰ تیر ہویں صدی قبل مسیح
ان میں موت کے بعد ملنے والی زندگی جس جگہ پر ہو گی اس کو ' شیول ') )Sheolکہا
گیا ہے۔ جس میں نیک و بد اپنے اعمال کے لحاظ سے مقیم ہوں گے۔ بہت سی جگہوں پر ' شیول
') )Sheolکا ترجمہ بطو ر ' پا تال' )عالم تحت االرض( بھی کیا گیا ہے جو تو رات کے
حقیقی متن کے لحاظ سے درست نہیں بلکہ ' شیول ') )Sheolعہد نا مہ قدیم کی کچھ آ یات
میں زمین یعنی دنیا اور کچھ میں زمین پر جہنم کے استعا رے میں استعمال ہوا ہے۔
مندر جہ ذیل حوالہ جات مال حظہ فر ما یئے:
"Sheol from beneath is excited over you to meet you when you come; It arouses
for you the spirits of the dead, all the leaders of the earth; It raises all the kings
)of the nations from their thrones – (Isaiah 14:9
پاتال ( زمین) اندر سے بے تاب رہتی ہے تم سے ملنے کو جب تم آتے ہو؛ اسی سے
تمہارے لئے مر دے کی زند گیاں پیدا کی جا تی ہیں ؛ اسی سے زمین کے تمام رہنما ؤں ؛
سب قو موں کے باد شا ہوں کو ان کی جگہوں سے زندہ کر کے اٹھا یا جاتا ہے۔ ( یسعیاہ ۔ )۱۴:۹
He keeps back his soul from the pit, And his life from passing over into Sheol.
)(Job 33:18
وہ بچا تا ہے اس کی روح کو پستی میں جا نے سے ،اور اس کی زندگی کو پا تا ل ( جہنم
) میں جا نے سے۔(ایوب ۔) ۳۳:۱۸
Whatever your hand finds to do, do it with all your might; for there is no
؟ activity or planning or knowledge or wisdom in Sheol where you are going
)(Ecclesiastes 9:10
جو کچھ بھی تمہارے ہا تھوں کو کر نے کو ملتا ہے وہ تم اپنے تئیں کر لیتے ہو ،کوئی
ٹھوس منصو بہ بندی یا علم یا عقل کا استعمال پاتال ( دنیا ) میں نہیں کرتے ،تم کہاں چلے جا
رہے ہو ؟ (واعظ)۹:۱۰
Activityاردو میں ‘ رو بہ عمل ‘ ہو نے کو کہا جا تا ہے جبکہ انگریزی میں اس کی تعریف
ذیل کے الفاظ میں کی جاتی ہے۔
1-The condition in which things are happening or being done.
2-A thing that a person or group does or has done.
The wicked will return to Sheol, Even all the nations who forget God. (Psalms
)9:17
غلط کار لوگ پاتال (جہنم) میں واپس بھیج د ئیے جا ئیں گے اور دیگر تمام قو میں بھی جنہوں
نے خدا کو بْھال یا۔ (زبور)۹:۱۷
Let death come deceitfully upon them; Let them go down alive to Sheol, For
)evil is in their dwelling, in their midst. (Psalms 55:15
موت ان پر دھوکہ دے کر ( بغیر بتائے) آ تی ہے ؛ انہیں زندہ کر کے پا تال(دوزخ) میں بھیج دیا
جاتا ہے ،شیطان صفت لوگوں کے لئے یہی ٹھکا نا ہے ،جس کے در میان میں رہتے ہیں۔(
زبور)۵۵:۱۵
Midstوسط ،دل اور قلب کے معانی میں آتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا رواں ترجمہ ' ان کا ٹھکانا
دوزخ کی آگ ہے جو ان کے دلوں میں لگتی ہے' قر آنی اعتبار سے بھی درست معلوم ہو تا ہے۔
"But if the LORD brings about an entirely new thing and the ground opens its
mouth and swallows them up with all that is theirs, and they descend alive into
Sheol, then you will understand that these men have spurned the
)LORD".(Numbers 16:30
" لیکن اگر خداوند ان کے خالف کوئی با لکل نئی چیز لے آئے اور زمین کا منہ کھلے اور وہ
ان کو بمع ان کے مال و اسباب نگل لے اور وہ زندہ کر کے پاتال میں اتارے جائیں ،پھر
تمہیں سمجھ آئے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کو ٹھکرایا۔ (گنتی )۱۶:۳۰
Bring aboutکا مطلب کسی سمت کے بر خالف ہوتا ہےجس کا استعمال عام طور پر ایسے کیا
جاتا ہے “ طو فان آتا دیکھا تو وہ اپنی نا ؤ لے آ ئے"۔انگریزی کے جملوں میں بھی اس کے
استعمال کی مثال مال حظہ فر مائیں ;cause to move into the opposite direction
""They brought about the boat when they saw a storm approaching
To bring back his soul from the pit, That he may be enlightened with the light of
)life. (Job 33:30
اس کی روح کو پستی سے واپس النے کے لئے .وہ زندگی کے نور سے روشن کیا جا تا
ہے(ایوب )۳۳:۳۰
)"Behold, God does all these oftentimes with men. (Job 33:29
سب لوگوں کے ساتھ اکثر یہی کر تاہے "(ایوب)۳۳:۲۹ "دیکھو ،خدا
But God will redeem my soul from the power of Sheol, For He will receive me.
)Selah (Psalms 49:15
لیکن خدا پاتال ( جہنم ) سے میری جان چھڑا دے گا ،وہ (خدا) قبول کر کے مجھے ۔سالہ (زبور
)۴۹:۱۵
قا رین ِ کرام غور فر ما ئیے زبور کے مندر جہ باال حوالہ ۴۹:۱۵میں ایک لفظ ' سالہ ' (Selah
ران تحقیق یہ جان)آ یا ہے جو عبرا نی زبان کے اصل متن میں ایسے לָה ,لکھا ہوا ہے۔ دو ِ
کر بڑی حیرت ہوئی کہ یہو دیوں اور عیسا ئیوں کے بڑے بڑے علماء اس کا مطلب نہیں جا نتے
اور دو ران ِ تال وت اس کے تلفّظ سالہ ( ) Selahکو ہی زبان سے ادا کرنے پر ا کتفا کر تے ہیں۔
۷1 )(Hebrew Bible 'سالہ ' قدیم آ سمانی صحیفوں کے عالوہ ۷۴بار عبرا نی بائبل
بار عبرانی زبور ) (Hebrew Psalmsاور کئی بار حبقوق ) (Habakkukمیں آیا ہے ' ِو کی
پیڈیا' ) (Wikipediaکے الفاظ میں ) (Selah is difficult concept to translateسالہ کا
علماء اہل ِ کتاب کی رائے میں ' سالہ' بطو ِر اوقاف )(punctuation ِ ترجمہ کر نا مشکل ہے۔
ان آ یات میں استعمال ہو تا ہے جہاں قا ری کو پڑ ھنے کے دو ران ٹھہرا ؤ کی ضرو رت ہو
تی ہے۔ کچھ لوگ ' سالہ' کو صوتی لحاظ سے اس سے ملتا جلتا لفظ ' سلہ' سمجھتے ہیں جو
عبرانی زبان میں ' پتھر کی چٹان' ) (rockکے لئے استعمال ہو تاہے اور عبرانی لکھا ئی میں
اس کے ہجے بھی سال ہ سے مختلف ہو تے ہیں ۔ اہل ِ کتاب کے کچھ دانشو روں کے خیال
میں ' سالہ ' مو سیقی کی سمت یا سنگیت کی وہ ہدا یات )(Musical Instructions
ہیں جو زبو ر ( )Psalmsکو پڑ ھتے وقت ملحو ِظ خاطر ر کھی جا نی چا ہ ئیں ۔ کیونکہ زبو
ر کو مو سیقی کے ساتھ پڑ ھا جا تا ہے۔
ہللا ہللا ۔ ! رنگ رنگ کے لو گ بھا نت بھا نت کی بو لیاں ۔ علما ء ِ اہل ِ کتا ب کا حال بھی ہما
رے علما ء ِ کرام جیسا ہی ہے۔ جو من میں سما یا وہ بول دیا ۔ نہ سو چا نہ سمجھا بنا تحقیق
کئے ا خترا عات لکھ لکھ کے کتا بوں کے انبا ر لگا د ئیے ۔ زیر نظر مضمون پیدائش ِ نو کی
تحقیق کے دو ران یہ ْگتھی بھی کھل گئی کہ تورات ،زبور ،انجیل اور دیگر آ سمانی صحیفوں
میں لکھا ہوا ' پْر اثرار ' لفظ ' سالہ ' در اصل و ہی ’ صالہ ’ہے جس کا حکم قر آ ن میں توا تر
کے ساتھ آ یا ہے۔
قا رین ِ کرام مال حظہ فر ما ئیے ۔ا گر زبور کی آ یت ۴۹:۱۵کےآ خر ی لفظ ' سالہ' کو
قر آنی لفظ ' صالہ' سے بدل دیا جائے تو اس آ یت کا مطلب با لکل واضح ہو جاتا ہے۔
But God will redeem my soul from the power of Sheol, For He will receive me. Selah
)(Psalms 49:15
لیکن خدا پاتال ( جہنم ) سے میری جان چھڑا دے گا ،وہ (خدا) قبول کر کے مجھے ۔سالہ (زبور
)۴۹:۱۵۔مو جو دہ تر جمہ
رواں تر جمہ مال حظہ فر ما ئیے:
لیکن خدا میری صالہ قبول کر کے جہنم سے میری جان چھڑا دے گا۔
لیکن خدا میری پتھر کی چٹان قبول کر کے جہنم سے میری جان چھڑا دے گا۔
لیکن خدا تال وت ِ کالم میں میرا وقف قبول کر کے جہنم سے میری جان چھڑا دے گا۔
لیکن خدا میری مو سیقی قبول کر کے جہنم سے میری جان چھڑا دے گا۔
قا رین ِ کرام مندر جہ با ال ترا جم میں سے کو نسا تر جمہ صحیح ہے اس کا فیصلہ تو آ پ خو
د کریں گے۔ ہما را کام تو صرف اپنی تحقیق کا نتیجہ آ پ کے سا منے پیش کر نا تھا۔
عہد نا مہ قدیم ) (Old Testamentمیں انتہائی تحقیق کے بعد إعادة التدوير) (Recyclingکا
قدرتی نظام معلوم ہوا ۔ ان آ یات کے شروع میں ہی لو گوں کے نسل در نسل لو ٹ کر واپس آ
نے کا ذکر وحی کے اسی مخصوص انداز میں ہے جو قر آن میں پا یا جاتا ہے۔سو رج کا طلوع
ہو نا ،غروب ہو نا اور الٹے پیروں واپس لو ٹ کے پھر وہیں آ جا نا جہاں سے وہ نکال تھا ۔ ہو ا کا
گھوم پھر کے وہیں پہنچ جا نا جہا ں سے وہ شروع ہو ئی تھی ۔ ندی نا لوں کا گھوم پھر کے واپس
وہیں پہنچ جا نا جہاں سے وہ شروع ہو ئے تھے۔ جو پہلے ہو چکا وہ دو با رہ ہو نے کی تکرار کی
مما ثلت انسان کی دو بارہ پیدا ئش ) (Reincarnationسے نہیں تو اور کیا ہے ؟ خاص طور
پر آ خری جملہ بہت اہمیت کا حا مل ہے جس میں جس میں یہ کہا گیا کہ سو رج کے نیجے جو
کچھ بھی ہے اس میں کچھ بھی نیا نہیں ! سو رج کے نیچے کیا ہے ؟ سو رج کے نیچے تو و
ہی دنیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں ۔ اگر اس دنیا میں کچھ بھی نیا نہیں اور سب کچھ ری سا ئیکل
) (Recycleہو کے وہی بار بار آ رہا ہے تو اس لحا ظ سے انسان کے ارتقا ء کی تاریخ بھی
نئے سرے سے رقم ہو گی ۔تحقیق کے کئی نئے باب کھل جا ئیں گے۔ قد رت کے بہت سے را زوں
سے پر دہ اْٹھے گا۔ زمین ،آ سمان اور انسان کی تخلیق کے وہ عوامل جو ابھی تک انسان کی
نظر سے باہر ہیں سامنے آ جائیں گے۔ سائنسی علوم میں بھی ترقی ہو گی اور بہت سی ایسی
گتھیاں کھل جا ئیں گیں جنہیں جا ننے کے لئے انسان اب بھی اپنا ما تھا پیٹ رہا ہے۔
قا رین ِ کرام اس بیش قیمت وحی کی تفصیل واعظ کی مندر جہ ذیل آ یات ۱:۴-۹میں حا ضر ِ خد
مت ہے۔
"Generations come and generations go, but the earth remains forever. The sun
rises and the sun sets, and hurries back to where it rises. The wind blows to the
south and turns to the north; round and round it goes, ever returning on its
course. All streams flow into the sea, yet the sea is never full. To the place the
streams come from, there they return again...What has been will be again, what
"has been done will be done again; there is nothing new under the sun.
)(Ecclesiastes 1:4-9
لو گوں کی نسلیں آ تی ہیں اور نسلیں چلی جا تی ہیں مگر دنیا ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے ۔
سو رج طلوع ہو تا ہے اور سو رج غروب ہو جا تا ہے ،اور جہاں سے نکلتا ہے تیزی سے
وہیں واپس آ جا تا ہے۔ ہوا جنو ب کی سمت میں چلتے چلتے شمال کی جا نب مڑ جاتی ہے۔گول
اور گول یہ چلتی ہے اور ہمیشہ اپنے رستے پر واپس لو ٹتی ہے۔ سب ندی نا لوں کا بہا ؤ
سمندر میں ہو تا ہے لیکن سمندر کبھی نہیں بھر تا۔جس جگہ سے یہ ند ی نا لے نکلتے ہیں دو با
رہ وہیں پر واپس چلے جا تے ہیں۔جو کچھ ہوا پھر سے ہو گا،جو کچھ کیا گیا پھر سے کیا جا ئے
گا۔سو رج تلے(دنیا میں) کچھ نیا نہیں ہے۔( واعظ)۱:۴ - ۹
ہللا ٌ اکبر ۔ قدیم آ سمانی صحا ئف میں نا زل کی گئی وحی کی تحقیق کے دو ران شان ِ ٰالہی اور
اس کے عظیم الشان کار خا نہ ِ قد رت کو د یکھ کر کئی بار ایسا و جد تاری ہوا جو احا ط ِہ
بیان سے قطعی باہر ہے۔ہللا کی کا ریگری جوں جوں عیا ں ہو تی رہی آ نکھوں سے نیند ا ْ ڑ
تی گئی اور شب و روز کی ایک ایک سا عت ور ط ِہ حیرت میں گزری۔ روح کی بے قراری
بڑ ھتی گئی اور با ر با ر جی میں آ یا کہ سب کام چھو ڑ کے کالم ِ ٰالہی کے حقیقی متن کا تر
جمہ ابتدائی صحیفوں سے شروع کر کے قر آ ن تک کر تا چال جا ؤں اور اْن تمام غلط فہمیوں اور
االول سے لے کر و حی اآلخر تک انسان نے اپنا اْلّو سیدھا کر نے
تضا دات کو مٹا دوں جو وحی ّ
کے لئے ہللا کے سر تھوپ رکھے ہیں ۔انجیل ،تو رات زبو ر اور دیگر آ سمانی صحیفوں کے
من گھڑت تراجم اور ال معنی اخترا عات کی بھر مار کے با وجود وحی کا اصل متن بڑی حد تک
اپنی اصل حا لت میں مو جود ہے اور اس پر وقت کی شکست و ریخت کا اتنا اثر نہیں ہوا جتنا
ہم سمجھتے ہیں ۔ اگر کہیں فر ق آ بھی رہا ہے تو قر آ ن کی کسو ٹی اس فرق کو دور کر
نے کے لئے ہما رے پاس مو جو د ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے کالم ہللا کے اس انمول زخیرے کو
یہو دیوں ،عیسا ئیوں ،مشر کوں ،کا فروں اور بت پرستوں کی کتا بیں سمجھ کر چھو ڑ دیا ۔
اگر ان کتا بوں کی منسو خی کا حکم بھی قر آ ن میں نہیں آ یا اور ہللا کے قوا نین بھی تبدیل نہیں
ہو تے تو پھر انہیں رد کیوں کر دیا گیا؟جواب آپ کے پاس محفوظ ہے کہ کن لو گوں کے کہنے
پر ایسا کیا گیا؟
اس وحی کا انکار کر نے والوں کے لئے لمح ِہ فکریہ ہے کہ ہللا کی نا زل کر دہ کتا بوں پر ایما ن
کا کیا ہوگا؟ تو رات ،ز بور ،انجیل اور دیگر آ سمانی صحیفوں کا خالی نام ہی زبان سے ادا
کرلینا تو ان پر ایمان ال نے کے ز مرے میں نہیں آ تا۔ نبؤت کا در وا زہ بند ہو جا نے کے بعد
وحی آ نے کا را س تہ بھی ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔ لہٰ ذا قر آن کے ساتھ ساتھ ہللا کی نا زل کر دہ
دیگر کتا بوں میں بھی وحی کیا گیا ایک ایک لفظ ہما رے پاس وہ نعمت ِ خدا وندی ہے جو ہمیں
دو با رہ کبھی میسر نہیں ہو سکتی ۔ بال شبہ قر آن اکیال ہی اپنے بیان کی تفصیل بیان ِ مقرر کے
اچھو تے انداز میں دْھرا تا ہے تا کہ غور و فکر کر نے والے کہی گئی بات کو اچھی طرح سمجھ
لیں ۔لیکن پھر بھی اگر کسی معاملے میں حوا لہ جات لینا نا گزیر ہوں تو انسانوں کی لکھی ہو
ئیں روا یتوں اور تفسیروں میں بھٹکنے کی بجا ئے قر آن سے پہلے ہللا کی نا زل کردہ کتا
بوں سے استفا دہ کرنا ہی ہللا کی کتا بوں پر ایمان ہے۔
قا رین ِ کرام غور فر مائیے قر آن اور اس سے پہلے نا زل ہو نے والی کتا بوں کے ما بین حوا
لہ جات ) (Cross Referencesکس طرح مل رہے ہیں۔
وہ لوگ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی اْ ّمی ہے جسے اپنے ہاں تورات اور انجیل میں
لکھا ہوا پاتے ہیں( قر آن سو ر ة االعراف ) ۷:۱۵۷
یسعیاہ کے باب ۲۹کی آیت ۱۲میں قر آن کے اس حوا لے کی تصدیق کی گئی :اسے ایک کتاب
دی جائے گی جو اْ ّمی ہو گا ،کہا جا ئے گا ،اسے پڑھ۔ وہ کہے گا میں تجھ سے التجاء کرتا ہوں
کہ میں اسے پڑھ نہیں سکتا۔
"And the book is delivered to him that is not learned, saying, Read this, I pray
)thee: and he saith, I am not learned." (Isaiah chapter 29 verse 12
تورات کی دوسری کتاب تثنيه ، ۱۸:۱۸تثنيه ۳۳:۲میں بنی اسرائیل کے دو نبی بھا ئیوں کی
او الد میں سے مستقبل میں ایک کا نبوت کے منصب پر فا ئز ہو نے کا ذکر ہے جو خدا کی و
حی کے ذ ریعے نیا قا نون الئے گا۔پھر آ گے چل کر ابتدا ء کی آ یت ۲۱:۲۱میں بنی اسرا ئیل
میں سے اسما عیلیوں کا حوا لہ دے کر ان کی آ ل میں سے محمد ﷺ کے منصب ِ نبوت پر فا
ئز ہو نے کی تصدیق کر دی گئی۔
"And I will pray the Father, and he shall give you another Comforter, that he may abide with you
)forever"(John 14:16
پھر یو حنا کی آیت ۱۴:۲۶میں اسی بات کو دو سرے انداز سے دہرا یا گیا۔لیکن خدا
میرے نام میں (یعنی مسیح علیہ السالم سے مسیحا ،نجات دہندہ یا ر حمت ) جو رحمة للعالمین
بھیجے گا وہ تمہیں سب کچھ بتائے گا اور تمہیں وہ چیزیں یاد دالئے گا جو میں تمہیں بتا چکا
ہوں ۔
"But the Comforter whom the Father will send in my name, he shall speak to
you all things, and bring all things to your remembrance, whatsoever I have said
)unto you."(John 14:26
عیسی علیہ السالم کی طرف سے درج ہے " :تا ہم میں ٰ إنجیل یوحنا الفصل 16اآلیة 7میں حضرت
تمہیں سچا ئی بتا تا ہوں ،اسی میں تمہا را فا ئدہ ہے کہ میں چال جا ؤں۔اگر میں نہیں جا تا تو
وہ رحمة للعالمین تم تک نہیں آ ئیں گے ،میں انہیں تم تک بھیجوں گا" ۔
"Nevertheless I tell you the truth; it is expedient for you that I go away: for if I
go not away, the Comforter will not come unto you; but if I depart, I will send
)him unto you".(John 16:7
یو حنا ۱۵:۲۶کے مزید دو مختلف ترا جم کی نقل بھی آ پ کی خد مت میں حا ضر ہے جن
میں کہا گیا ہے :جب وہ مدد گار آئے گا ،جس کو میں خدا سے تمہا ری طرف بھجوا ؤں گا ،وہ
سچی روح خدا کی طرف سے آ ئے گی تو میری تصدیق کرے گی۔دوسرے تر جمے میں کہا گیا
ہے کہ وہ جب خدا کی طرف سے آ ئیں گے تو میری گوا ہی دیں گے۔
"When the Advocate comes, whom I will send to you from the Father--the Spirit
of truth who goes out from the Father--he will testify about me. (John 15:26)New
International Version Translation
“But when the Helper comes, whom I will send to you from the Father, the
Spirit of truth, who proceeds from the Father, he will bear witness about me.
.(John 15:26) English Standard Version
یو حنا کی انجیل کی مندر جہ با ال آ یات ۱۵:۲۶ ،۱۴:۲۶ ،۱۴:۱۶اور ۱۶:۷کے اصل متن میں
یو نا نی لفظ ' پیراقلیطس' ( Paracletos) Παρακλήτουاستعمال ہوا ہے جو حقیقت میں
اسم ' احمد' ہے جس کے اگر معا نی بھی بطو ر ِ اسم لئے جا تے تو محمد ﷺ ہی بنتا۔ نام کا
تر جمہ ہی مقصود تھا تو ' تعریف کیا جا نے واال' ) (The Praised Oneبنتا مگر اس لفظ کی
جگہ انگریزی تر جمے میں ‘ ' Comforterیعنی تسلّی دینے واال یا را حت دینے واال لگا
یا ہے جو کسی طور بھی درست نہیں ۔ تا ہم رحمة للعالمین ) ،(mercy for all creaturesمہر
بان رفیق ) ،(Kind Friendایڈووکیٹ ) (Advocateتر جمے کے لحا ظ سے کسی حد تک
اصل متن کے یو نا نی لفظ ' پیراقلیطس' کے معا نی کے قریب ہیں۔ سینٹ بر نا با کی انجیل
) (Gospel of Barnabasکو کلیسا کی منظور ی حا صل نہیں۔ لہٰ ذا غیر جا نب داری کے تقا
ضوں کو ملحو ظ ِ خا طر رکھتے ہوئے سینٹ جیمز ) (Saint Jamesاور سٹینڈرڈ انگریزی با
ئبل کے نسخوں ) (Standard English Version Translationکے رائج الوقت اور تسلیم شدہ
انگریزی ترا جم کو اس مضمون میں ہو بہو نقل کیا گیا ہے۔
زبور کے نغم ِہ سلیمان ۵:۱۶میں حضرت محمد ﷺ کا نام ِ گرامی عبرا نی زبان کے جلی حروف
میں " محمد "لکھ کر ان کی تعریف کی گئی ا ور اسی باب کی مختلف آ یات میں یہ بھی بتا یا گیا
کہ وہ عرب کے عال قے سے ہوں گے اور ان کا کر دار اور حلیہ مبا رک کیسا ہو گا۔
۵:۱۶کا اصل عبرا نی متن مندر جہ ذیل ہے جس میں عبرا نی لفظ ' מחמדים' محمد اِم بطور اسم آ یا
ہے۔ ' اِم ' عبرا نی میں کسی نام کو عزت سے مخا طب کر نے کے لئے استعمال ہو تاہےاور انبیاء
علیالسالم کے نا موں کے ساتھ بھی لگتا ہے۔
ְרּוש ָׁלִם
ֹודי וְזֶה ֵרעִ יְ ,בנֹות י ָׁ
)(5:16 Song of Solomonחִ ּכֹוַ ,מ ְמ ַת ִקים ,וְ ֻכּלֹוַ ,מחֲ ַמ ִדים; זֶה ד ִ
نغمہ ِ سلیمان ۵:۱۶کی مندر جہ با ال آ یت کو عبرا نی تلفظ میں ایسے پڑ ہیں گے :ھیکّو
ممیتّاکم وی ْکل ّ ْو محمد اِم ِز ِہ د ّو دہ وا زیہرائی بینا۔
تر جمہ :اْن کا منہ میٹھا ہے ،وہ جناب محمد ﷺ ہیں۔یہ میرے محبوب ہیں اور یہ میرے رفیق
ہیں ۔ او یرو شلم کی بیٹی ! (نغمہ ِ سلیمان) ۵:۱۶
English: His mouth is most sweet; yea, he is ALTOGETHER LOVELY. This is
my beloved, and this is my friend, O daughters of Jerusalem. (5:16 Song of
)Solomon
عبرانی متن میں لفظ محمد ﷺ جوں کا توں مو جود ہے مگر اس آ یت کے انگریزی تر جمے میں
سینٹ جیمز نے محمد ﷺ کے نام کا بھی تر جمہ کر کے )' (ALTOGETHER LOVELY
مجمو عی طور پر پیا را ' یعنی ہر دل عزیز لکھ دیا جو کسی بھی ز بان کی صرف و نحو کے
حوالے سے درست نہیں اور اس آ یت کے اصل متن سے بھی مطا بقت نہیں رکھتا کیو نکہ
بعینہ نام لکھا جا تا ہے نا کہ اس کے معا نی۔
ٖ کسی کا نام ترجمے میں
اس کے عالوہ اسی عنوان کی آ یت ۵:۱۰میں یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ میرے محبو ب کی رنگت
سفید اور گالبی ہے اور وہ دس ہزار سپا ہیوں کے فا تح سر دار ہوں گے۔
Song of Solomon 5:10 says: "My beloved is white and ruddy, pre-eminent
"above ten thousand.
اس تا ریخی حقیقت سے کون وا قف نہیں کہ ۶۳۰ میں محمد ﷺ دس ہزار سپا ہیوں کے
ساتھ فاتح سپہ سا الر کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے؟
قا رین ِ کرام ! یہ سب ہما رے علما ء کے قائم کر دہ مفروضے ہیں کہ قر آن سے پہلی کتا بوں
سے بہت سا مواد خا رج کر دیا گیا ۔ ان میں بہت سی تبدیلیاں کر دی گئیں اور یہ کہ ان کتا بوں میں
وحی کا اصل متن نا پید ہو چکا ہے۔ اگر واقعی میں ایسا ہے تو اس مضمون میں تورات ،ز بور
ری نے ابھی تک ان کتا ،انجیل اور دیگر آ سما نی صحیفوں سے لی گئیں آ یات یہو دو نصا ٰ
ْ
بوں کے اصل متن سے خا ر ج کیوں نہیں کیں ؟ با وجود اس کے کہ یہ مز کو رہ آ یات ان کے مو
جو دہ ایمان کے خالف ہیں۔ اس کے عال وہ ہم صالہ کے لفظ کے بارے میں مندر جہ با ال سطو ر
میں ذکر کر چکے ہیں کہ یہ و ہی صالہ ہے جس کا حکم اسالم سے پہلے اہل ِ کتاب کے دیگر مذا
ہب کو بھی دیا گیا تھا ۔اوریہ لفظ ابھی تک ان کتا بوں کے اصل متن میں س -ل-ا-ہ کے
ری خو د قبول کر تے ہیں کہ انہیں اس
ِہ ّجوں میں جوں کا توں موجود ہے ۔اگر چہ ِ یہو دو نصا ٰ
لفظ ' سالہ' کے معا نی کا کچھ ادراک نہیں مگر کسی نے پھر بھی اس لفظ کو ان کتا بوں
کے اصل متن سے خا رج نہیں کیا ۔ بلکہ جہاں جہاں ' سال ہ 'اصل متن میں مو جو د ہے تمام
ترا جم میں یہ لفظ بغیر ترجمہ کئے ان آ یات کے تر جمے میں لگا دیا جا تا ہے ۔ رہی بات آ یات
کے تر جمے اور تفسیر میں مفہوم کے بدلنے کی ۔وہ تو ہم بھی قر آن کے تر جمے اور تفسیر
میں کر تے ہیں جس سے ان کتا بوں کے اصل متن میں کوئی فرق نہیں پڑ تا ۔ اِ ّکا دْ ّکا آ یات
میں اگر قر آن سے اختالف پا یا جا ئے تو ان پر نئے سرے سے غور کر کے و حی کو الگ کیا
جا سکتا ہے۔ کیونکہ و حی کا اندا ز ِ بیا ں انسانی بیان سے یکسر مختلف ہو تا ہے اور اس میں
پنہاں کا ئنا تی سچا ئیاں ) (Universal Truthخو د گوا ہی دیتی ہیں کہ یہ کسی انسا ن کا لکھا
ہوا کالم نہیں ہو سکتا ۔ پھر بھی اختالف با قی رہنے کی صو رت میں اس بیان کو چھو ڑا بھی
جا سکتا ہے۔مگر پو ری کی پو ری کتا بیں ہی رد نہیں کی جا سکتیں ۔ ورنہ ہما را شما ر
منکر ین ِ ِ وحی میں ہو گا !
۵۸۷ قبل مسیح میں بابل کے در انداز حملہ آوروں کے ہاتھوں یہودی جال و طن ہوگئے اور
جب چھ ٹی قبل مسیح میں ' سائرس' نے اس خطے میں سلطنت ِ فارس قائم کی تو یہود یوں
نے بھی سکھ کا سانس لیا ۔ اس طرح فارس کے بادشاہ سائرس نے قدیم یہو دیوں کےنجات
دہندہ کا کر دار اداکیا جسکی وجہ سے و ہا ں کے مقا می زرتشی اور یہو دی ایک دو سرے
کے بہت قریب آ گئے۔ جب دو نوں مذاہب میں باہمی روابط بڑہنے لگے اور زر تشی علماء یہو
دی مذہب پر اثر انداز ہونے لگے تو سائرس نے ایک طرف تو یہو دیوں کا دل جیتنے کے
لئے انہیں مذ ہبی آ ذادی دے دی مگر دوسری طرف فارس کے سر کاری مذہب کے طور پر
زرتشی مذہب کا اعالن کر دیا۔جس سے یہو دی مذ ہب میں بہت سی ثقافتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ
وحی کی گئی ' پیدائش ِ نو 'کے ذریعے آخرت کی زندگی بھی ' قیا مت کے بعد ْمر دوں کے
صور میں بدل گئی۔ا گر یہو دیوں پر سائرس اور زر قبروں سے زندہ ہو کر اٹھنے ' کے زرتشی ت ّ
تشی مذہب کے اثرات نہ ہوتے تو آج یہو دیت کا چہرہ با لکل مختلف ہوتا۔ عہد نامہ جدید
)(New Testamentکے آ نے تک یہودی تین فرقوں یعنی فریسی) ، (Phariseesصدو کی)
عیسینی ) (Essenesمیں بٹ چکے تھے۔ قیا مت اور آخرت کے فارسی ٰ (Sadduceesا ور
صورات مسترد کرنے اور یہودی مذہب میں زرتشی در اندازی کے خالف یرو شلم میں ت ّ
مظاہرے بھی ہوئے جن کی فارسی گور نروں نے کھل کر مزاحمت کی ۔ فارسی گور نروں نے
ہو شیاری دکھاتے ہوئے یروشلم میں زر تشی آ بادی بڑ ہا دی اور فارسی مبلغین نے یہو دیوں
کے بھیس میں زرتشی مذہب کی زور دار تبلیغ شروع کردی جس سے رہی سہی کسر بھی پوری
ہوگئی اور یہو دیت میں زرتشی مذہب پوری طرح سرایت کر گیا۔
اسالم کے حوالے سے بھی یہ بات خا صی توجہ طلب ہے کہ جو فارسی مبلغین یہو
دیوں کے بھیس میں پہلے سے خطہ ِ عرب میں موجود تھے انہیں کی آل او الد کو استعمال کر
کے اسالم کا حلیہ بگا ڑ ا گیا کیونکہ اس وقت تک وہ مجو سی بہرو پیئے مقامی زبان اور اہل ِ
کتاب کے عقائد سے بخو بی وا قف ہو چکے تھے جن کے لئے مسلما نوں کے نظر یا ت تبدیل کر
نا کوئی مشکل نہ تھا۔
یہو دیوں کے بعد عیسا ئیوں میں بھی قیا مت کے دن ْمر دوں کے زندہ ہو نے کا نظر یہ زر تشی
دور ّاول کی فر قہ بندی کا ہی یتیجہ ہے۔ یہ وہی دور ہے جس
تسلط کے زیر ِ اثر عیسا ئیت کے ِ
عیسی علیہ السالم کے بارے میں یہ مفرو ضہ قائم کیا گیا کہ یا تو وہ خدا
ٰ میں حضرت
ہیں جو انسا نی شکل میں پیدا ہوئے ہیں یا کو ئی ایسے انسان ہیں جو خدا بن گئے ہیں؟ اس وقت
۷۰ عیسوی میں رو میوں کے اسرا ئیل پر حملے کے بعد مصر کی طرف فرار ہو یعنی
نے والی کلیسا ئے یرو شلم کی با قیات اور پال ) )Paulکے قائم کر دہ کلیسا ئے روم کے در
میان کھینچا تا نی خوب زور شور سے چل رہی تھی جس کے نتیجے میں رومن دھڑے نے عیسا
ئیت کی بہت سی وحی کر دہ تعلیمات کے سا تھ ساتھ پیدا ئش ِ نو ) (Reincarnationکے قد رتی نظام
عیسی علیہ السالم خدا تھے جو
ٰ کو بھی مستر د کر دیا اور یہ یقین کر نے لگے کہ حضرت
انسانی شکل میں دنیا میں آ ئے تھے )(Jesus was God become man۔ ْا س دن سے یہ عقا ئد عیسا
ئیوں کے ایمان کا مستق ل حصہ بن گئے۔ عیسا ئیوں کا یرو شلم واال د ھڑا جا نتا تھا کہ حضرت
ہو اعلی مقام پر فا ئز
ٰ عیسی علیہ السالم فقط ایک انسان تھے جو حکم ِ ٰالہی سے نبو ت کے
ٰ
ئے ۔ یرو شلم وا لے عیسائی پیدا ئش ِ نو ) (Reincarnationمیں بھی یقین رکھتے تھے ۔ان کا یقین
عیسی علیہ السالم اب دنیا میں واپس تشریف نہیں ال ئیں گےکیونکہ ان کا دنیا میں آ نے
ٰ تھا کہ حضرت
کا مقصد پو را ہو چکا ہے اور وہ حیات و مما ت کے دا ئرے سے نکل کر ابدی زند گی پا چکے
ہیں۔مگر بد قسمتی سے رو می عیسا ئیوں نے سیا سی جنگ جیت لی اور کلیسا ئے روم نے ' ہر
بار مر نے کے بعد فوری حساب کتاب اور اگلی زند گی میں سزا اور جزا پر فو ری عمل
بار بار مر نے کے بعد حسا ب کتا ب اور پھر گز شتہ زند گیوں کے اعمال در آمد ' یعنی
بار بار زندہ ہو نے کے و حی کئے ہو ئے قا نون کی تعریف آ خرت میں ایک کے مطا بق
ہی بار بر پا ہو نے والی قیا مت کے بعد ْمر دوں کے ہمیشہ کے لئے زندہ ہو نے کے زر تشی
صور میں بدل گئی۔ رہی سہی کسر پال) (Paulاور اس کے حوا ریوں نے ا س کی تشریح میں چا
ت ّ
ر چا ند اور لگا کے اس طرح پو ری کی کہ ' یسو ع' پہلی بار آ ئے تو سب کے گنا ہ لے کر اْ
و پر چلے گئے اور اب وہ دو با رہ قیا مت کے دن فرشتو ں کے ساتھ آ سما نو ں سے ہمیں بخشوا
نے کے لئے اتر یں گے۔ہمیں مو ت کے بعد گہری نیند سے جگا کر ) (Resurrectionابدی زند گی
دیں گے اور ہمیشہ کے لئے ہما ری نجا ت) (Salvationکرا دیں گے۔ اس غلط عقیدے کو صحیح
ثا بت کر نے کے لئے حوا لے بھی تراشے گئے اور انجیل کی ان آیات کا گمراہ کن تر جمہ
بھی کیا گیا جن میں مر نے کے بعد فوری احتساب اور جزاء و سزا کے ساتھ نئی زند گی کے آ غا
ز کے با رے میں وحی کی گئی تھی۔ لیکن اگر اب بھی انجیل کے اصلی متن کو غو ر سے پڑ ھا
جا ئے تو بے شمار آ یات میں کھلی آ نکھوں سے پیدا ئش ِ نو ) (Reincarnationکے بیا نات اور
اْ نکی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ لہٰ ذا قبروں میں سو ئے ہوئے ْمر دوں کی الشوں کو قیامت کے
دن زندہ کر کے اْٹھا ئے جا نے کا عقیدہ ) (resurrection of corpsesصرف یہودیت ،عیسا ئیت
ایمان باآلخرة )(Eschatology یا اہل ِ کتاب کے مذا ہب کے ساتھ ہی شروع نہیں ہوا ۔ بلکہ یہ
قدیم فارس ( ایران) کے ْا ن ستارہ پرست رو حانی مجو سیو ں کی ایجا د ہے جنہوں نے زر
تشی مذ ہب )(Zoroastrian Religionکی بنیا د رکھی تھی جس نے پہلے یہو دیوں پھر عیسا
ئیوں اور ان کے بعد مسلما نوں کو ڈسا ۔
تین عقلمند آ دمی) (Three Wise Menجنہیں عیسا ئیو ں کی تا ریخ میں تین رو حا نی باد شا
عیسی علیہ السالم کی والدت کے بعد ان کے لئے تین تحائف لے کر
ٰ ہ بھی کیا جاتا ہے حضرت
کر سمس کی آئے تھے۔جو بعد میں عیسا ئی روا یا ت کا ایک اہم اور مستقل حصہ بن گئے۔
تقریبات اور ان میں تحفے ) (Christmas Giftsلینے اور دینے کا رواج عیسا ئیوں میں اِ نہیں تین
مجو سیوں کی و جہ سے شروع ہوا۔متی کی انجیل بھی ان تین ممتاز غیر ملکی ستا رہ شناس لو
عیسی علیہ السالم کی زیارت لو بان ،مر(
ٰ گوں کا حوالہ دیتی ہے جنہوں نے حضرت
گنقرس) اور سونے کے تحا ئف کے ساتھ کی تھی۔تا ریخ میں یہ واقعہ ' مجو سی شہرت'
) (Magi Fameکے نام سے خا صہ مشہور ہے۔ اگر وقت اجا زت دے تو اس تا ریخی واقعہ کا
مطا لعہ کرنا بہتر ہو گا تا کہ آ پ خود حقیقت جان سکیں۔انگریزی میں میجک Magicکا
لفظ انہیں تین لو گوں کے گروہ میجی Magiسے ما خوذ ہے۔کیوں کہ وہ مجو سی ستارہ
شنا س علم ِ نجوم اور علم السحر یعنی جا دو میں بھی مہا رت رکھتے تھے۔ان المجوس الثال ثہ
)(Three Magiکے نام بالتازار ) (Balthasarكاسبار ) (Casparاور ملكیور ) (Melchiorتھے جن
کے ایرا نی لباس میں ا صل تصویری خا کے نیو یا رک میں آ ثا ر ِ قدیمہ کے عجا ئب گھر
بروک لین ) )Brooklyn Museumمیں محفوظ ہیں۔ جن کی عکسی نقول آ پ کی خد مت میں حا
ضر ہیں۔
عہد ِ قدیم )(Old Testamentکے دو ر میں جب یہو دی با بل کی جال وطنی سے گزر رہے تھے
تصور داخل کیا گیا ۔جس میں پو ّ تو ان کے مذہب میں آ خرت اور قیا مت کا مو جو دہ زر تشی
ری دنیا کے ْمر دوں کو انکی قبروں سے زندہ کر کے فیصلے کا آخری دن رو ز ِ قیا مت
تصور تشکیل پایا ،شیطان کو ّ مقرر ہوا ،پروں والے فرشتوں کے مو جو دہ تنظیمی ڈ ھا نچے کا
ہللا کا حریف بنا کر پیش کیا گیا ،مہراب والی عبا دت گا ہوں کا قیام عمل میں ال یا گیا اور
تصور سے تبدیل کر دیا گیا۔
ّ پیدائش ِ نو کے ر ّبی عمل کو ز مین دوز پا تال کے غیر منطقی
متی) (Matthewکے مطابق چار میں سے صرف ایک وہیت اناجیل ) (Canonical Gospelsمیں
یہ بیان کیا گیا ہے کہ مز کو رہ با ال میجی ) (Magiہی وہ لوگ تھے جنہوں نے یسوع کی
عبا دت کر نے کی طرح ڈالی اور ان کو خدا کا در جہ دیا۔جس کو بعد میں کلیسا ئے روم نے زبو
ر کی آ یت ۷۲:۱۱کی غلط تشر یح کر کے زر تشیو ں کے میجی عقیدے سے منسلک کر لیا
عیسی علیہ السالم کو خدا مان کے ان کی عبا دت شروع کر دی
ٰ اور تحریری طو ر پر حضرت
گئی ۔ زبو ر کی مز کو رہ آ یت ۷۲:۱۱آپ کی خد مت میں پیش کی جا رہی ہے۔
پہلی صدی کے مشہور یہودی مورخ فال ویس یو سیفس ( )Flavius Josephusلکھتے ہیں کہ
زرتشی سازش کے بعد جب یہودی تین بڑے فرقوں میں بٹ گئے تب بھی یہو دیوں کے فرقہ
فریسی) (Phariseesسے تعلق رکھنے والے راست باز یہودی پیدائش ِ نو ) (Reincarnationپر
پال ) (Paulخو د بھی یہودیت چھوڑ کے عیسائیت اختیار کرنے ایمان رکھتے تھے۔
سے پہلے فریسیوں کے فر قے سے ہی تعلق رکھتا تھا ۔
۱۶۵قبل مس یح کے ان نیک کاروں کےقبیلے سسدانس فریسیوں کا شجرہ ِ نسب
( )Assideansسے جا ملتا ہے جنہوں نے مکا بی شو رشوں ()Maccabean Revoltکے خالف
یو نان اور شام کے حکمران أنطیوخس چہارم ) (Antiochus IVسے ٹ ّکر لی تھی۔یہ عہد نامہ
قدیم کے بعد اور حضرت عیسی علیہ السالم کی پیدا ئش کے درمیان چار صدیوں پر محیط وہ
معرض و جود میں نہیں آئی تھی اور یرو شلم میں یو نانی بت پر
ِ دور تھا جب ابھی سلطنت ِ روم
ستوں کا اثر اور عمل د خل اپنے عروج پر تھا۔
مورخ یو سیفس ( )Josephusمزید لکھتے ہیں کہ فریسیوں کا ایمان تھا کہ موت کے بعد
شیطان صفت برے لوگوں کی روح کو سزا دی جاتی ہے لیکن راست باز اور اچھے لوگوں کی
روح دوسرے جسموں میں لو ٹا کر ان کی زند گی بحال کر دی جا تی ہے تاکہ وہ دو بارہ جی
سکیں۔ یہودی تاریخ کے مستند حوالوں سے یہ بات بھی ثا بت ہوتی ہے اْس ز ما نے میں یہو
دیوں میں یہ ایک راسخ عقیدہ تھا کہ جو انبیاء علیہ ِ السالم اس دنیا سے ر خصت فر ما
جا تے ہیں وہ اپنی وفات کے بعد پیدائش ِ نو )(Reincarnationکے ذر یعے اسی دنیا میں
واپس تشریف لے آتے ہیں ۔ مگر یہو دیوں کے یہ مستقل عقائد یرو شلم پر زر تشتیوں کے
غلبے کی وجہ سے دم تو ڑ گئے۔
یہو دیوں کے ایمان اور قدیم عقا ئد میں پیدا ئش ِ نو ) (Reincarnationکے ثبوت عبرانی
زبان کے لفظ ِگل ْگل " לגול " ) (Gilgulیعنی' اوتار ' سے ملتے ہیں ۔عبرا نی کے اس لفظ
کا عر بی میں تر جمہ ' خط المرمى' بھی کیا جا تا ہے ۔سا دہ اردو میں اسے گول دائرہ اور فارسی
خط در وازہ' بھی کہا جاتا ہے۔ ' ِگل ْگل' ) (Gilgulکے ساتھ عبرانی زبان کا دو سرا لفظ "میں ' ِ
הנשמות ",ہا-نے-شا موت ( ) ha'ne'shamotبھی لگا یا جا تا ہے جس کا عر بی میں ترجمہ '
النفس' اور فارسی میں ' ارواح' کیا جاتا ہے۔یہو دی تعلیمات میں یہ دو نو عبرانی لفظ " לגול "
اور " הנשמות ",اکٹھے مال کے بو لے جاتے ہیں جن سے روح کی ری سائیکلنگ
) ( transmigration and Reincarnationاور پیدائش ِ نو کے دائرے کا مطلب لیا جاتا
ہے۔یہ حیا ت و ممات کا وہی گول دائرہ ) (cycleہے جس کا ذکر قر آن ِ کریم میں بھی مو جود
ہے اور ہم اس کا حوالہ ' واعظ ' کی آ یات ۱:۴-۹میں اسی مضمون کی سطور ِ باال میں دیکھ
چکے ہیں ۔لہٰ ذا ' ِگل ْگل ِنشا موت ) (Gilgul Neshamotکو تقمص ِ روح (metempsychosis
) of soulsیا روح کا سا ئیکل کہا جاتا ہے۔جو یہو دیوں کی مقدس تحریروں ) (Kabbalahمیں
وسطی ) (Medievalکے ٰ ملتا ہے اور ان عقا ئد پر ایمان رکھنے کی تعلیم ان کے یہاں قرون ِ
زما نے سے چلی آ رہی ہے۔ قدا مت پسند ) (Orthodoxیہو دی اگر چہ دو با رہ پیدا ئش
) (Reincarnationیا اوتا روں کے سوال پر زیا دہ زور نہیں دیتے مگر اس کی تعلیم کو صحیح
ضرور سمجھتے ہیں۔ یہو دیوں کے فر قہ الحسیدیہ )(Hasidicکے لوگ جلجلم یعنی پیدا ئش ِ نو
کے سائیکل پر سب سے زیادہ ایمان رکھتے ہیں اور مقدس تحریروں ) (Kabbalahکو بہت قدر
کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں ۔
عبرانی میں' زوهار' )(Zoharمر نے کے بعد در جا ت بلند کر کے دو بارہ اْٹھا ئے جا نے کو جا
تاہے۔انگریزی میں اس کا تر جمہ )(Elevationکیا گیا ہے جس کی تشریح انگریزی کی جا معہ
لغا ت میں ان الفا ظ میں کی جا تی ہے۔
The action or fact of raising or being raised to a higher or more important level, state,
or position or increase in the level of something,
یعنی ٰ
اعلی اور زیا دہ اہم سطح ،حالت یا موقف پر اْٹھا نے یا اْٹھنے کا عمل۔
زو ھار کو تیر ہویں صدی میں اس وقت خا صی مقبو لیت حا صل ہوئی جب یہو دی علما ء کے
در میان طویل بحث و مبا حثوں کے بعد باآل خر پیدا ئش ِ نو کی حقیقت کو تسلیم کر کے ا ِسے تو
رات کےحصہ' بالك' )(Balakکے ساتھ جو ڑ کر سمجھا گیا جس میں پیدا ئش ِ نو کے سلسلے
کے حوا لہ جات پہلے سے مو جود تھے۔ لہٰ ذا پیدا ئش ِ نو اور او تاروں کی آ مد کے سلسلے میں '
تصور بھی یہو دیوں کے عقیدے میں شا مل ہے۔دا نیال کی مندر جہ ذیل آ ّ زو ھا ر' ) (Zoharکا
یت ۱۲:۳میں شجر ِ زند گی ) (The Tree of Lifeسے ترقی دے کر دو با رہ اْٹھا ئے جا نے
)(Elevationکا بیان بطو ر ِ دلیل پیش کیا جا تا ہے۔
"But the wise shall understand that their elevation comes from the Creator, the Tree of Life. And
)they who are righteous shall shine like the brightness of the firmament" (Daniel 12:3
لیکن عقلمند سمجھ جا ئیں گے کہ انہیں تر قی دے کر اْٹھا یا جا نا ،آ تا ہے ،خا لق ،زند گی
کے شجر کی طرف سے ۔ اور جو لو گ صالح ہیں وہ چمک اْٹھیں گے چمکتے ہو ئے آ سمان
کی طرح۔دا نیال ۱۲:۳
The Tree of Lifeیعنی زندگی کے شجر کے ساتھ elevationیعنی ،اْو پر اٹھا نا ،ارتفاع ،باال
رفتن ،بوجود آمدہ یا نهض کا بغور مطا لعہ کیا جا ئے تو دا نیال کی مندر جہ باال آیت ۱۲:۳سے
یہ بھی واضح ہو تا ہے کہ زندگی کا منبع ) (sourceیعنی شجر ِ حیات صرف ہللا تعالی کی ذات ہے
جس سے سب زند گیاں نکلتی ہیں اور لوٹ کر اسی میں جا تی ہیں۔
اٹھا ر ہویں صدی میں ِلتھوا نیا کے یہو دی استا ذ العلما ء راہب یلیاہ )(Elijahنے بائبل کی
کتاب یو نس ) (the biblical Book of Jonahپر ایک سیر حاسل تبصرہ لکھا جس میں انہوں نے
مدلل حوالوں سے یہ ثا بت کیا کہ کتاب ِ یو نس پیدا ئش ِ نو )(Reincarnationکے استعا روں
) (allegoryپر مبنی ہے جو او تار کی شکل میں انسان کے دو با رہ پیدا ہو نے کے عمل کی و ضا
حت کر تے ہیں۔
معروف یہو دی مذ ہبی شخصیت راہبہ یتشک لو ریا ()Rabbi Yitzchak Luriaلکھتی ہیں
موسی حضرت آ دم کے تیسرے بیٹے شیت کی پیدا ئش ِ نو ٰ کہ موشه ( )Mosheیعنی
) (Reincarnationتھے جبکہ شیت ہا بیل کا اگال جنم تھا۔ راہبہ لوریا مزید لکھتی ہیں کہ ' م'
' ،ش ' )(shinسے اس موسی کے شروع کا حرف ٰ )(memسے نئے جنم کے نام
سے پہلے جنم کے نام شیت کا پہال حرف اور ' ہ ' )(hehسے ہابیل بنتا ہے ان عبرانی
حروف کو مال دیا جا ئے تو مکمل نام موشه ( )Mosheبنتا ہے جو عبرانی صحیفوں میں
سی علی ِہ السالم کا نام ہے۔اسی طرح یہو دیوں کی تا ریخ میں ھلیل دو سرا جنم لے کر حضرت مو ٰ
حضرت ہا رون علیہ السالم پیدا ہوئے تھے ۔
اس وا قعہ کے ساتھ گنتی کی مندر جہ ذیل آ یات ۲۵:۶ -۱۸کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔
A Midianite woman, distinguished as the daughter of Zur, "head of the people of a fathers' house in Midian." She
was slain by Phinehas at Shittim in company with "Zimri, the son of Salu, a prince of a fathers' house among the
Simeonites" (Numbers 25:6-18).
مد یا نی قبیلے کی ایک عو رت جو مدا ئن کے سر دار زور کی دختر کے نام سے مشہور تھی
اسے بنحا س نے شیتم (سفید پھو لوں والے کیکر کا درخت) کے پاس شمو نیوں کے راجہ سلو
کے بیٹے جمری کے ساتھ قتل کر دیا۔گنتی ( ۲۵:۶ -۱۸رواں تر جمہ)
تثنيه )(Deuteronomyکے مندر جہ ذیل حواے ۲۵:۵ - ۱۰بھی اہل ِ یہو د میں کسی آ د می کی
دو با رہ پیدائش ) (reincarnationکے ضمن میں دئیے جا تے ہیں جن میں عبرانی زبان کا ایک
لفظ יבום ,ملتا ہےجس کا تلفظ یی بم ( )yibum,ہے ۔ اسے انگریزی میں levirateاور عربی
میں السلفه کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق اگر کسی یہو دی عورت کا جوان آ دمی مر جائے تو
وہ اپنے آ دمی کے بھائی سے شا دی کر تی ہے اور پیدا ہو نے والے بچے کا نام ا پنے مرے
ہوئے آ د می کے نام پر رکھا جا تا ہے ۔ یہو دیوں کا یقین ہے کہ یہ بچہ اس عو رت کے پہلے آ
دمی کا ہی او تار یعنی دو سرا جنم ہو گا جس سے اس آ دمی کی آ ئندہ نسل چلے گی۔
اگر بھائی اکٹھے رہتے ہوں اور ان میں سے کو ئی بغیر بیٹا پیدا ہوئے گزر جائے تو اس کی بیوہ
خا ندان سے باہر ہر گز شا دی نہیں کرے گی۔اس عو رت کے مر حوم شو ہر کا بھائی اسے قبول
کر کے اس کے ساتھ شا دی کرے گا اور اس عورت کے آدمی کے بھائی کے طور پر اپنی ذمہ
داری ادا کرے گا۔پہال بیٹا پیدا ہو گا تو اس کا نام اپنے مرے ہوئے بھائی کے نام پر رکھے گا تاکہ
اس کا نام بنی اسر ئیل سے نہ مٹے۔تاہم اگر یہ آ دمی اپنے مر حوم بھائی کی بیوی کے ساتھ شا دی
نہ کر نا چا ہے تو اس عو رت کو چا ہئے کہ وہ عالقے کے بڑے بزر گوں کے پاس جا کر کہے
کہ میر ے آ دمی کا بھائی اپنے مرے ہوئے بھائی کا نام بنی اسرا ئیل میں جا ری رکھنا نہیں چا
ہتا۔پھر شہر کے بڑے لوگ اسے طلب کر کے اس سے بات کریں گے۔ اگر وہ اس بات کا اصرار
کرے کہ میں اس عورت سے شا دی نہیں کر نا چاہتا تو اس کے بھائی کی بیوہ ان بڑے لوگوں کی
مو جود گی میں ننگے پا ؤں ہو کےاس پر چڑ ھائی کرےگی۔اور اس آ دمی کے منہ پر تھوکتے
ہوئے کہے گی کہ اس ا دمی کے ساتھ یہی کرنا چا ہئے جو اپنے بھائی کے شجرہ ِ نصب کا
إنشاء نہیں کرتا۔اس آ دمی کا شجرہ اسرا ئیلیوں میں ننگے پاؤں واال خا ندان کہالئے گا۔ تثنيه
) ) ۲۵:۵ - ۱۰ (Deuteronomyبین االقوامی نسخہ ِ جدید(
5 Ifbrothers are living together and one of them dies without a son, his widow
must not marry outside the family. Her husband’s brother shall take her and
marry her and fulfill the duty of a brother-in-law to her. 6 The first son she bears
shall carry on the name of the dead brother so that his name will not be blotted
out from Israel. 7 However, if a man does not want to marry his brother’s wife,
she shall go to the elders at the town gate and say, “My husband’s brother
refuses to carry on his brother’s name in Israel. He will not fulfill the duty of a
brother-in-law to me.” 8 Then the elders of his town shall summon him and talk
to him. If he persists in saying, “I do not want to marry her,” 9 his brother’s
widow shall go up to him in the presence of the elders, take off one of his
sandals, spit in his face and say, “This is what is done to the man who will not
build up his brother’s family line.” 10 That man’s line shall be known in Israel as
The Family of the Unsandaled.) Deuteronomy 25:5-10) New International
Version (NIV)
سے بھی ظا ہر ہو تا ہے کہ زما نہ ِ قدیم کے اہل ِ کتاب میں حیا ت بعد۹:۷ -۹لو قا کی آ یات
( کے آ نےreincarnated people) الممات پر ایمان اور دو با رہ پیدا ہو نے والے او تاروں
کے عقا ئد اتنے مضبوط تھے کہ جب حضرت عیسی علیہ السالم کی نبوت کا آ غاز ہوا تو لوگ
بہت دیر تک اس اچھنبے میں پڑے رہے کہ کہیں عیسی علیہ السالم پیدا ئش ِ نو کے بعد
(John) یحی علیہ السالمٰ آنے والے کسی سا بقہ نبی کے او تار تو نہیں ؟ کچھ لوگوں نے ان کو
کی دو بارو پیدائش یعنی ان کا اوتار خیال کیا اور کچھ نے حضرت الیاس علیہ السالم کا
( کے سلسلے میں حضرت عیسی علیہ السالم کی اپنے شا گردوںReincarnation) ۔پیدائش ِ نو
سے گفتگو اس ضمن میں بہت غور طل ب ہے۔ جب انہوں نے اپنے شا گردوں سے حلفیہ انداز
) کے ا وتار تھے جو دو بارہElijah( (یحی) در اصل حضرت الیاس ٰ میں کہا کہ یو حنا
) کے ذریعے دنیا میں تشریف الئے تھے۔Reincarnation) پیدائش
( علیہ السالم کی پیدائش سے پہلے فرشتوں نے حضرت ز کر یا علیہJohn) یحی ٰ حضرت
یحی ہو گا اس
ٰ السالم کو خو ش خبری سنا ئی کہ ان کی بیوی ایک بچہ جنے گی جس کا نام
یحی علیہ السالم کی سر گر میوں کے بارے میں جو کچھ بتا یا گیا
ٰ خو ش خبری میں حضرت
اس کا بیا ن م تی اور لو قا دو نو ں میں ایک جیسا ہے جن کے حوالے آپ کی خد مت میں حا ضر
ہیں ۔
And he will go before him in the spirit and power of Elijah to turn the hearts of the fathers to
the children and the disobedient to the wisdom of the just; to make ready a people prepared
for the Lord (Luke 1:17. Italics mine).
جنہیں ہم خا لص ہما رے قدیم روا یتی علما ء کی بات تو احا ط ِہ بیان سے قطعی باہر ہے مگر
بھی پوپ کے نظر یات قر آ نی سوچ کے حا مل جدت پسند علماء کہتے ہیں ان کی عمر
اور عیسا ئیت کے مغر بی فلسفے کا چر بہ اپنی کتا بوں میں لکھتے گزری۔ہمیں اس حقیقت کا پتہ
صرف اس لئے نہیں چال کہ ہم نے نہ کبھی پوپ اور پاد ریوں کی کتا بیں پڑ ھی تھیں نہ مذ
ہب کا مغر بی فلسفہ اور نہ ہی کلیسا ِ ّاول کی سا زشیں ۔ مز کو رہ علما ء لوقا کی مندر جہ با ال آیت
یحی علیہ السالم میں کام
۱:۱۷کا ترجمہ ایسے کرتے جس سے یہ مطلب نکلے کہ ' حضرت ٰ
کرنے کی صالحیت اور جذ بہ ایسا تھا جیسا کہ حضرت الیاس علیہ السالم میں دیکھا جاتا تھا'۔
بھی اپنی شہا دت کی مو ت کے ہللا کی راہ میں ما را جا نے وا ال شہید ا ن کے نز دیک
بعد جسمانی زندگی نہیں پا تا بلکہ اس کا صر ف نام ہی زندہ رہتا ہے اسی طرح وہ موت کے بعد
حیات والی قر آ نی آ یات کو بھی جسما نی زند گی کے مطلب میں لینے کی بجائے صرف مر
لیتے ہیں۔ یہ علما ء اس دور کی پیدا وار ہیں جب ہر شے کو کمو دہ سوچ میں تبدیلی کا استعارہ
نیزم ) (communismکے میکا نکی اور ما دی قوا نین کی روشنی میں دیکھا جا تا تھا ۔اس لئے
قر آ ن کہتا ہے تو کہتا رے مگر انہیں یقین نہیں آ تا تھا کہ کبھی مر نے والے بھی لوٹ کر آ تے
ہیں؟
عقل سے عاری علماء کے خود ساختہ متی ( )Matthewکے مندر جہ ذیل حوالہ جات نہ صرف
فلسفے کی نفی کرتے ہیں بلکہ موت کے بعد ملنے والی جسمانی زندگی کی تو ثیق بھی کر رہے ہیں۔
And if you are willing to accept it, he is Elijah who is to come. He that hath ears to hear, let
)him hear. (Matthew 11:14-15
اور اگر تم اس بات کو قبول کر نے کو تیار ہو تو یہ وہی یلییاہ (الیاس ) ہے جو آ نے واال ہے
۔جس شخص کے پاس سننے کے لئے کان ہیں وہ سن لے (متی)۱۱:۱۴-۱۵
And if you are willing to understand what I, mean, he is Elijah, the one the prophets said would
come. And if ever you were willing to listen, listen now! (Matthew 11:14-15, the Living New
Testament).
اور اگر آپ یہ سمجھنے کے لئے تیار ہیں کہ میرا مطلب کیا ہے ؟ وہ الیاس ہے ،وہی جس کے
بارے میں نبیوں نے کہا تھا کہ وہ آ ئے گا۔اور اگر کبھی آپ یہ سننے کے لئے تیار تھے ،تو اب
سنئے ! (متی ، ۱۱:۱۴– ۱۵زندہ نیا عہد نامہ)
قا رین ِ کرام متی اور مر قس کے مندر جہ ذیل بیا نات مال حظہ فر ما یئے جن میں حضرت
عیسی علیہ السالم نے حضرت یلییاہ (الیاس ) کے او تار کی آمد ٰ
) (Rebirth of the same personکی تصدیق خو د فر ما ئی۔
But I tell you that Elijah has already come, and they did not know him, but did to him
whatever they pleased (Matthew 17:12).
پہلے ہی آ چکے ہیں ،اور لوگوں نے ان کو جا لیکن میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ یلییاہ (الیاس )
نا نہیں تھا مگر لوگوں نے جو کچھ بھی ان کے لئے کیا اس پر خوش ہیں۔(متی )۱۷:۱۲
But I tell you that Elijah has come, and they did to him whatever they pleased, as it is written
of him (Mark 9:13).
آ گیا ہے،اور وہ خوش ہیں جو کچھ بھی اس کے مگر میں تمہیں بتا تا ہوں کہ یلییاہ (الیاس )
لئے کیا ایسا ہی لکھا ہوا ہے۔(مر قس)۹:۱۳
And if you are willing to receive it, he is Elijah who was to come." (Matthew
)11: 14
ہے جو آ نے واال تھا ۔متی:۱۴ اور اگر تم اس بات کو قبول کر نے کو تیار ہو تو یہ وہی یلییاہ
۱۱
He said, It is John whom I beheaded; he is risen from the dead (Mark 6:14-16).
اس نے کہا یہ وہی یو حنا ہے جس کو میں نے سر بریدہ کیا تھا ؛ یہ مر کے زندہ ہو گیا !
(مرقس ) ۶:۱۶
And he (King Herod) said that John the Baptist was risen from the dead, and therefore mighty
works do show forth themselves in him. Others said that it is Elijah. And others said that it is
a prophet, or as one of the prophets. But when Herod heard thereof, he said, It is John whom I
beheaded; he is risen from the dead (Mark 6:14-16). (Authorized King James Version).
یو حنا بپتست مر کے زندہ ہو گیا تھا ،خدا و ند ِ غالب اور اس (باد شا ہ ہیرو دیس ) نے کہا
کے کام اسی سے ظا ہر ہو تے ہیں ۔ کئی لو گوں نے کہا کہ یہ یلییاہ ہے ۔ اور کئی نے کہا
کہ یہ کوئی نبی ہے یا نبیوں میں سے ہے۔ مگر جب ہیرو دیس نے یہ سنا تو اس نے کہا کہ یہ تو
وہی یو حنا ہے جس کو میں نے سر بریدہ کر دیا تھا ؛ یہ مر کے زندہ ہو گیا۔(شاہ جیمز کا
تصدیق شدہ نسخہ ،مر قس )۶:۱۴ - ۱۶
Luke (9:7-9) people thought that Jesus was John the Baptist resurrected, or a reincarnation of
Elijah or one of the old prophets.
روح اصالح اور روحا نی تعمیر و ترقی کے لئے بھی د نیا میں آ تی ہے اور دو بارہ پیدائش
کسی خا ص مقصد کے حصول کے لئے بھی ہوتی ہے ۔اگر یہ مقصد کسی کی زندگی کے
ایک دور میں پو را نہیں ہو تا تو روح کو دو بارہ واپس زمین پر بھیج دیا جا تا ہے۔ بعض
اوقات دنیا میں واپسی محدود حاالت اور مختصر وقت کے لحاظ سے بھی ہوتی ہے مثالً چھوٹی
پیدائش ِ نو کے ذریعے روح کی دنیا میں واپسی گزشتہ عمر اور کوئی معزوری وغیرہ ۔
زندگی کے اعمال کی سزا کے لئے بھی یہ نا گزیر ہے۔جیسے کہ اگر کسی امیر آ دمی نے پچھلی
زندگی میں اپنی دولت اور طا قت کا نا جا ئز استعمال کیا تو وہ ہو سکتا ہے کہ اگلی زند
گی میں مفلوک الحال اور غریب بنا کر بھیجا جائے۔ دوبارہ پیدائش کے ذریعے روح کی دنیا میں
واپسی کا حوالہ تو رات کی کتاب ' روتھ' ) (Ruthیعنی رحمة کی آیت ۱:۶میں بھی دیکھا جا
سکتا ہے۔
بائبل کا باب نہم پیدائش ِ نو کے بعد ملنے والی سزا کا حوالہ دیتا ہے۔ جب ایک اندھے کو
دیکھ کر حضرت عیسی علیہ السالم کے شا گر دوں نے کہا۔
)Rabbi, who sinned, this man, or his parents, that he was born blind? (John 9:2
راہب ،جو اندھا پیدا ہوا ،اس آدمی نے یا اس کے والدین نے کیا گناہ کیا تھا؟ (یوحنا)۹:۲
اس اندھے نے ظا ہر ہے کہ اپنی ماں کے پیٹ میں تو کوئی گناہ نہیں کیا ھوگا ۔لہٰ ذا پچھلے جنم کے
گنا ہون کی پا داش میں اس شخص کو اس جنم میں سزا دی گئی۔
میرا جسم بھی اس امید میں آرام سے رہے گا کہ تو جہنم میں میرے نفس کو نہیں چھوڑے گا
(زبور ) ۱۶:۹ ،۱۰۔پھر زمین کی د ھول زمین پر ایسے ہی واپس آ جائے گی جیسے کہ یہ تھی
اور پھر روح اسی خدا کے پاس واپس چلی جائے گی جس نے اسے دیا تھا )واعظ )۱۲:۷
"Listen, I tell you a mystery: We will not all sleep, but we will all be changed." (1
)Corinthians 15:51
سنو ،میں تمہیں بھید کی بات بتا تا ہوں ؛ ہم سب سو ئیں گے نہیں لیکن ہم سب کو تبدیل کر
دیا جائے گا ( 1کرنتھیوں )۱۵:۵۱
دانیال کی آیت ۱۲:۱۳میں بھی موت کے بعد زند گی ملنے کا بیان ذیل میں مال حظہ فر مائیے۔
""Now go your way to the end and rest, and you shall arise to your destiny at the end of days.
)(Daniel 12:13
" اب اپنے راستے پر چلتے جاؤ آخر تک اور سکون رکھو ،اور تم زندہ کئے جاؤ گے اپنی
قسمت کے مطا بق ،زندگی کے دن پورے ہو نے پر")دانیال)۱۲:۱۳
go your way to the endآخر تک کوشش کرنے کے محاورے میں استعمال ہوا ہے rest ،سے
مراد اطمنان رکھنے کے ہیں destiny ،
وہ قسمت ہے جو گزشتہ اعمال کے مطابق ہو گی۔ end of daysزند گی کے دن پو رے ہونے یعنی
موت کے مطلب میں ہے۔
تم اپنی ا نتہائی کوشش کرتے رہو اور اطمنان رکھو کہ مرنے کے بعد تمہیں تمہا رے اعمال کے
مطابق زند گی دی جائے گی۔(رواں تر جمہ)
بھی پیدا ئش ِ نو کے بیان اس کے عال وہ و حی (Revelation 7:14)۷:۱۴کا مندر جہ ذیل
دائرے( ) cycle of reincarnationsکے عمل اور تسلسل کی وضا حت کر تا ہے۔جس کا احتتام اس
وقت تک نہیں ہو تا جب تک کہ انسا نی روح ترقی کر تے کر تے اپنی بلو غت کے انتہا ئی مقام
تک نہ پہنچ جا ئے۔یہ مقا م مکا شفه )(Revelationکی انجیل میں ان الفا ظ میں بتا یا گیا ہے۔
"These are the ones who died in the great tribulation. They have washed their robes in the blood of
)the Lamb and made them white. (New Living Testament, Revelation 7:14
"These are they who have come out of the great tribulation; they have washed their robes and made
)them white in the blood of the Lamb. (Revelation 7:14
یہ وہ ہیں جو بڑی مصیبت سے با ہر آ ئے ہیں ۔ انہوں نے برہ کےخون میں رنگے اپنے کپڑ ے
د ھو کے سفید کر لئے ہیں۔ و حی ۷:۱۴
)"No one can see the kingdom of God unless he is born again";( John 3:3
کو ئی بھی خدا کی با د شا ہی کو نہیں دیکھ سکتا جب تک وہ دو با رہ پیدا نہ ہو(یو حنا ) ۳:۳
مندر جہ ذیل حوالوں میں جنم کرم یعنی مکا فات ِ عمل کے اس پہئے کی مثا لیں دی جا رہی ہیں جو
گز شتہ زند گی کے اعمال کے حساب سے آ نے والی زندگی مر تب کر تا ہے۔ اسے قسمت یا تقدیر
بھی کہا جا تا ہے۔ ہما رے علما ئے جدید نے قسمت اور مقدر کا تصور ختم کر نے کی کو شش میں
بڑی بڑی ضحیم کتا بیں بھر دیں ۔ انہیں علما ء کے سچے پیرو کا ر عر صہ دراز سے ان کی کتا
بوں کا با قا عد گی سے درس بھی دیتے چلے آرہے ہیں ۔ مگر لو گوں پر اس درس و تد ریس کا
کچھ اثر نہیں ہو تا اور نا ہی لو گ اس جھوٹی بات کو ما ننے کے لئے تیار ہیں کہ قسمت کو ئی
چیز نہیں ۔لو گ بھی سچے ہیں کیو نکہ وہ روز مرہ زند گی میں قسمت کا عملی مظا ہرہ اپنی آ
نکھوں سے دیکھتے ہیں۔کو ئی فا قے کر رہا ہے تو کو ئی سو نے کے نوا لے کھا رہا ہے۔کو ئی
محتاج ہے تو کو ئی غنی۔کو ئی تنگد ستی مصیبت اور پریشا نیوں میں گھرا ہے اور کسی کا گھر
آ سود گی اور خو شحا لی سے جنت بنا ہوا ہے۔ یہ سب اصل میں پچھلے جنم کے اعمال کے ہی کرم
ہیں ۔جی ہاں تقدیر ہے اور وہ با قا عدہ مرتب کی جا تی ہے۔مگر ہللا کسی کے ساتھ ظلم نہیں کر تا
بلکہ بندہ خود اپنے ساتھ ظلم کر کے اپنی بری تقدیر کے لکھے جا نے کا ذ مہ دار ہے۔جو اس نے
کل بو یا وہ آج کا ٹ رہا ہے۔
)"All who draw the sword will die by the sword";( Matthew 26:52
"If anyone is to go into captivity, into captivity he will go. If anyone is to be
)killed with the sword, with the sword he will be killed."(Revelation 13:10
اگر کسی کو قید میں جا نا ہے تو وہ قید میں ہی جا ئے گا ۔اگر کسی کو تلوات سے مر نا ہے تو وہ
تلوار سے ہی مرے گا( وحی )۱۳:۱۰
LORD says: "'Those destined for death, to death; those for the sword, to the
"'sword; those for starvation, to starvation; those for captivity, to captivity
(Jeremiah 15,2).
خدا وند کہتا ہے"،جن کی قسمت میں مر نا ہے وہ مریں گے ،جن پر تلوار زنی ہو نی ہے وہ تلوار
زن ہوں گے ،جنہیں فا قے کر نے ہیں وہ فا قے کریں گے ،جنہیں قید ہو نا ہے وہ قید میں ڈا لے جا
ئیں گے(یر میاہ)۱۵:۲
نیو یارک کے مشہور ناشر ادارہ با نٹم بکس) (Bantam Books Publisherنے ۱۹۸۳
میں نامور ما ہر ِ نفسیات ڈاکٹر برا ئن ویز )(Dr Brain Weissکی مشہور ِ زما نہ کتاب ' بہت سی
زندگیاں بہت سے ما سٹر' ) (Many Lives, Many Mastersشا ئع کی جس کو نہ صرف نفسیا
تی سائنس کے علمی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی بلکہ کتاب کے مصنف ڈاکٹر برائن نے اپنے
مریضوں پر انکی گزشتہ زند گیوں کی تحقیق و تفتیش میں کئے گئے جو تجر بات اپنی کتاب
میں رقم کئے تھے ان پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔
(Old ڈاکٹر برائن اپنی کتاب کے صفحہ ۳۵اور ۳۶پر لکھتے ہیں کہ عہد نامہ قدیم
) Testamentاور عہد نامہ جدید )(New Testamentمیں دو بارہ پیدا ہو نے
) (Reincarnationکے بارے میں وحی کئے گئے حوا لہ جات بدر جہ اتم مو جود تھے جو
۳۲۵ عیسوی میں سلطنت روم کے شہنشا ِہ اعظم قسطنطین ) (Constantineنے اپنی ماں
ہلینا ) (Helenaسے مل کر عیسائیوں کے مو جودہ نئے عہد نامے سے نکال کے عیسا ئیت کو
روم کا سر کاری مذ ہب قرار دے دیا ۔ اور ۵۵۳ عیسوی میں منعقد ہو نے والے قسطنطنیہ
ری) (The Council of Niceaکے دوسرے اجالس میں شہنشاہ کے اس عمل کی تو ثیق کی مجلس ِ شو ٰ
کر تے ہوئے پیدا ئش ِ نو ) (Reincarnationکو عیسا ئیت میں بد عت )(heresyقرار دیدیا گیا۔
لہٰ ذا ،اصل با ئبل کے متن کی رو سے دوبا رہ پیدا ئش ) (Reincarnationکے بیا نات
تو انجیل میں جوں کے توں مو جو د رہےمگر کلیسا کی مجلس المسکونی (Ecumenical
) Councilنے بائبل کے ترجمے اور تفسیر سےان بیا نات کو خا رج کر دیا۔ کلیسا کی مجلس ِ ِ
ری کے ارکان نے کلیسا کے نظر یات کو مستحکم کر نے کے لئے بائبل کی دو بارہ پیدا شو ٰ
ئش والی تعلیم کے خالف رائے دہی دے کر اسے روک دیا اور اس سے متعلقہ تعلیمی مواد
کو بھی کا لعدم قرار دے کر بحق ِ کلیسا ضبط کر لیا۔ اس کے بعد کلیسا اور حکو مت ِ وقت کی
ملی بھگت سے اس دور کا آ غا ز ہوا جب پیدا ئش ِ نو ) (Reincarnationکی تعلیم دینے والوں کو
سزا ئے مو ت دی جانے لگی۔راست باز علما ء کو سیا سی دبا ؤ اور طا قت کے زور پر خا موش
کر دیا گیا اور بار ہویں صدی عیسوی تک حا لت ایسی ہی رہی۔جس کے بعد یہ غلط عقا ئد ہی
عیسائ یوں کا مو جو دہ ایمان بن گئے۔
کارل یو نگ ) (Carl Jungاسگمنڈ فرائیڈ ) ، (Sigmund Freudہینری فورڈ )(Henry Ford
،چا ر لس لینڈ برگ ) ،(Charles Lindberghولیم ییٹس ) ، (William Yeatsایڈ گر کا ئس
) (Edgar Cayceاور النور روز ولت ) (Eleanor Rooseveltجیسے دور ِ حا ضر کے غیر
متعصب اور علمی بصیرت رکھنے والے قا بل مفکرین نے پیدا ئش ِ نو کی تعلیما ت کی نشا ط ِ ثا
نیہ اور ترویج کے لئے گراں قدر خد ما ت سر ا نجام دیں ۔جس سے عیسا ئیت کے اعتقا د میں تو
فی الحال کو ئی خا ص تبدیلی نہیں آ ئی کیو نکہ کلیسا والے ہما رے مو لویوں کی طرح اپنے
مسلک پر ڈ ٹے ہو ئے ہیں مگر پیدا ئش ِ نو )( reincarnationکے بارے میں عوام الناس میں آ گا
ہی ضرور دیکھی گئی ہے اور یہ مو ضوع محفلوں اور رسمی و غیر رسمی گفتگو میں بھی
زیر ِ بحث آ نے لگا ہے۔ایک حا لیہ سر وے کے مطا بق مغربی مما لک بشمول امریکہ کے ۳۳
فیصد اور مشرقی یو رپ کے ۴۰فیصد عیسائی پیدائش ِ نو ) (reincarnationپر یقین رکھتے ہیں
جو آ خرت پر ایمان ال نے کی مد میں یقینا ً خوش آیند بات ہے ۔ کیو نکہ قر آن خود کہتا ہے کہ
ہللا پر ایمان اور آ خرت پر ایمان رکھنے والوں کو کوئی خوف و حزن نہیں ہو گا ۔خواہ وہ یہودی
ہوں ،عیسائی ہوں یا زرتشی (دیگر مذا ہب کے ماننے والے) ہوں۔البقرہ ۶۲
امریکی ریاست ور جینیا کی میڈیکل یو نیورسٹی کے پچاس سال تک چیئر مین رہنے والے
ما ہر ِ طب ،نیو یار ک کی کو ر نیل میڈیکل یو نیورسٹی ، (Cornell University) ،لو ئسیا نا
سٹیٹ یو نیور سٹی ) (Louisiana State Universityاور الس اینجلس کی ٹیولین میڈیسن یو
نیورسٹی ) (Tulane University of Medicineکے عمید الجا معہ )(dean of university
اور حیا تیات ،با ئیو کیمسٹری ،اد ویات ،دما غی امراض ،طب البا طنی ،نفسیا تی
امراض اور دیگر طبّی مضا مین پڑھا نے کے استاد ،سا ئنس کی تحقیقی سو سائٹی کے بانی،
تین سو سے زائد تحقیقی مقا لوں اور پیدا ئش ِ نو ) (Reincarnationپر دو ہزار سے زائد صفحا
ت پر مشتمل چا لیس ضحیم کتا بوں کے مصنف ،طبّی تحقیق اور ریسرچ میں بین اال قوا می
شہرت کے حا مل پر و فیسر ڈا کٹر آئن سٹیونسن ) (Ian Stevensonکے خیا ل میں عیسا ئت
اور اسالم کے عال وہ دنیا کے تقریبا ً سبھی مذاہب پیدا ئش ِ نو ) (Reincarnationمیں یقین
رکھتے ہیں۔پرو فیسر مو صوف نے علم أسباب األمراض پر اپنی کتا بوں میں پیدا ئشی نشا
نوں ) (Birthmarksاور پیدا ئشی نقا ئص ) (Birth Defectsپر سیر ِ حا صل بحث کی ہے
جس میں ا نھوں نے طبّی سا ئنس کی رو سے ثابت کیا ہے کہ ہما رے جذ با ت
حتی کہ گز شتہ زند گیوں میں پیش آنے ) ، (emotionsیا دیں ) ، (memoriesاو ر ٰ
والے حوا دث کی وجہ سے لگنے والی جسما نی چو ٹیں ) (physical injuriesتک ایک
زند گی سے دو سری زند گی میں منتقل ہو تی ہیں۔ کسی انسا ن میں کو ئی مخصو ص صال حیت
،کال ،آرٹ ،فن یا قا بلیت نہ تو مو رو ثی ہو تی ہے اور نا ہی کسی ما حول کے مر ہو ِن منت ہو
تی ہے۔ بلکہ روح جب ایک جسم کی موت کے بعد دو بارہ زندہ ہو کر کسی نئے جسم میں جا تی
ہے تو وہ پچھلی شخصیت کے نقو ش بھی نئی زند گی میں اپنے سا تھ لے جا تی ہے۔پرو فیسر
سٹیونسن نے نیو یا رک اسپتال میں نفسیا تی مریضوں کا عالج کر تے ہو ئے یہ در یافت کیا کہ ان
کے مریضوں میں ذہنی تنا ؤ اور ڈپریشن کے اثرات ان کی پچھلی زند گیوں سے وابستہ تھے
جو بڑ ہتے بڑ ہتے فشار ِ خون ) (High Blood Pressureاور سا نس کے امراض میں تبدیل ہو
گئے۔ امریکی ریاست اریزو نا کے سینٹ جو زف اسپتال میں بھی مریضوں کو اند رونی امراض
)(internal diseaseکی اد ویات دیتے ہوئے اسی قسم کے تجر بات ہوئے ۔ اس کے بعد ڈاکٹر
مو صو ف نے نہ صرف امریکہ بلکہ ہندو ستان اور دن یا کے دیگر مما لک میں جا کر سینکروں
مریضوں پر تحقیق کی جس سے یہ ثا بت ہو گیا کہ بہت سی دا ئمی بیما ریوں ،جسما نی معذور
یوں ،ڈ پریشن اور ذہنی تنا ؤ کا تعلق کسی انسان کی گزشتہ زند گی سے ہو تاہے نہ کہ مو رو
ثیت یا ما حول سے۔ پرو فیسر ڈا کٹر آئ ن سٹیونسن کی کتا بوں او ر مقا الت کا مطا لعہ کر
کے لمحہ بہ لمحہ ہو نے والی پید ا ئش ِ نو )(Reincarnationکی حقیقت کو سا ئنس اور طب کی
روشنی میں بخو بی جا نا جا سکتا ہے۔ اگر وقت اجا زت نہ دے تو آئن سٹیونسن کی کم از کم ایک
کتاب ' حیا تیات اور پیدا ئش ِ نو' ) (Biology and Reincarnationکا مطا لعہ کر نا
دلچسپی سے خا لی نہ ہو گا۔
علم ِ حیا تیات اور طبّی سائنس کے مطا بق ڈی این اے )(DNAکے تر کیبی تسلسل میں جنیا
تی تحویل ) (Gene Mutationکی وجہ سے جو مستقل تبدیلی واقع ہو تی ہے وہ ہما رے جین
بنا تی ہے۔ ہر انسان میں جنیا تی تحویل دو طرح سے ہو تی ہے۔ جن میں سے ایک تو ماں باپ
کے کرو مو سو م سے ہو تی ہے جسے جین کی مو رو ثی تحویل یا ساللة الجرثومية کہتے
ہیں ۔دو سری تحویالت ) (Mutationsصرف بیضہ) (Eggیا صرف نطفہ یعنی الخلية المنوية
)(sperm cellمیں إخصاب )(Fertilisationکے فوراً بعد واقع ہو تی ہیں جن کو نئی
تحویالت )) De Novo Mutationsکہتے ہیں ۔یہ نئی اور باہر سے آئی ہو ئی جنیا تی تحویل
بھی والدین کی طرف سے آئی ہو ئی مو رو ثی تحویل کے سا تھ ساتھ بچے کے تمام خلیا ت میں
پا ئی جاتی ہے ۔ نو مو لود کے خلیات میں ان اِضطرابات ) (Disordersکا تعلق مو رو ثیت یا
کسی قسم کے خا ندا نی پس منظر ) (Family Historyسے با لکل نہیں ہو تا اور نا ہی یہ نسل
در نسل منتقل ہو تا ہے۔انسان نے ایک عر صے تک یہ مفرو ضہ قائم کر رکھا تھا کہ ا نسا نی
خلیوں میں مز کو رہ پر اثرار نئی جنیا تی تحویل ما حول اور سورج کی غیر مرئی قو توں کی
بدو لت ہو تی ہے جس میں سو رج سے آ نے والی باالئے بنفشی تابکاری (ultraviolet
) radiationاہم کر دار ادا کر تی ہے۔مگر مو جو دہ دور میں جنوم ) (Genesپر ہو نے والی
تحقیق نے یہ ثا بت کر دیا ہے کہ زیر ِ بحث خا مو ش جین ) (Muted Genesنہ ماں با پ سے
ورا ثت میں آ تے ہیں اور نا ہی کو ئی خا ندا نی پس منظر رکھتے ہیں بلکہ ان میں گز شتہ زند گی
کے نقوش ثبت ) (Recordہو تے ہیں جنہیں نئی زند گی اپنے سا تھ لے کر اس دنیا میں آتی ہے
اور یہ ایک بر قیرے ) (Electronic Chipکی طرح پہلے سے ریکا ر ڈ شدہ پرہ گرام اور گز
شتہ زند گی میں کئے جا نے والے اعما ل کے اثرات نئی زند گی میں منتقل کر تے ہیں۔
نصاری کے جا نے مانے پا دری ،عیسا ئی مذ ہب کے ممتاز عالم ،امریکہ کی کیلے فو ٰ اہل
ِ
رنیا یو نیور سٹی کے رئیس ِ فلسفہ ،ادبی را ئل سو سائٹی کے رکن ،غیر خیالی (non-
) fictionیعنی سچا ئی اور حقیقت پر مبنی تحریروں کے اد بی مقا بلے میں امریکی ریا ست
کیلے فور نیا سے گولڈ میڈل پانے والے پر و فیسر گڈ یز مک گر یگر )(Geddes MacGregor
اپنی کتاب ' عیسا ئیت میں پیدا ئش ِ نو' ( )Reincarnation in Christianityمیں لکھتے ہیں
کہ پیدا ئش ِ نو کے با رے میں عیسا ئیوں کا روا یتی عقیدہ مذ ہبی کتا بوں کے نظر یات سے
مطا بقت نہیں رکھتا ۔پرو فیسر مو صوف نے پیدا ئش ِ نو کے نظر ئیے کی صدا قت پر زور دیتے
ہو ئے عیسا ئی سوچ میں پیدا ئش ِ نو کے کر دار کا نیا تصور پیش کیا جو الہا می کتا بوں سے
عین مطا بقت رکھتا ہے۔ پرو فیسر گریگر مزید کھتے ہیں کہ دس سال قبل عیسا ئیوں کے کسی
بڑے عالم نے انہیں ابتدا ء (پیدا ئش )کے اولین اصولوں کے الطینی اور یو نانی نسخہ جات اس در
خواست کے ساتھ بھیجے کہ ان پر غور فرماکر یہ بتا ئیے کہ دو نوں میں سے کون سا صحیح ہے۔
کیونکہ دو نوں کا بیان ایک دو سرے سے مختلف ہے۔جب دو نوں نسخوں پر غو رو خو ض کے بعد
پرو فیسر گریگری نے اس عالم کو پیدا ئش ِ نو کی حقیقت اور ال طینی زبان میں کئے گئے غلط
ترجمہ اور تفسیر کی تفصیل لکھ کر بھیجی تو وہ اسے پڑہ کر سکتے میں آگیا اور اس ڈر سے کہ
اگر یہ تفصیل منظر ِ عام پر آ گئی تو کہیں عیسا ئیت کی روح نہ زخمی ہو جائے اس عالم نے وہ
رپو رٹ ہمیشہ کے لئے اپنی دراز میں بند کر دی۔ کیو نکہ اس بات کے ٹھوس شوا ہد مو جود ہیں
کہ پال ) (Paulکے زیر ِ اثر عیسا ئیت کے ابتدا ئی ادوار میں مذ ہبی تعصب کی بنا ء پر کالم ِ
ٰالہی کا ال طینی زبان میں گمراہ کن تر جمہ کیا گیا تھا جس کے اثرات ِ بد نے عیسا ئیت کو مذ ہب
کی اصل تعلیم سے دور کر دیا۔ سینٹ جیروم )(St. Jeromeکے خطوط میں سے خط ۱۲۴جو
اس نے مغربی روم کے حکمران اویطس کو لکھا تھا اس میں سینٹ جیروم نے اس بات کو خاص
طور پر واضح کیا تھا کہ یو نا نی سے ال طینی میں ترجمہ کرتے وقت قبل الوجود (pre-
) ، existenceالمبادئ األولى ) (First Principlesاور پیدائش کے بیا نات تبدیل کر ان کا غلط
تر جمہ کیا گیا ہے۔سینٹ جیروم کا خط اس بات کا کھال ثبوت ہے کہ عیسائیت کے ابتدا ئی دور میں
کلیسا کی ساز شوں سے پہلے پیدائش ِ نو ) (reincarnationکی تعلیم کتا ب ِ مقدس کے مطا بق
دی جاتی تھی۔ یا د رہے کہ اویطس عیسا ئیوں کی تا ریخ میں وہ شخصیت ہے جس نے روم کی
ثقا فت اور عیسائیت کے مشکل وقت میں انتہائی ساز گار اثر و رسوخ استعمال کیا۔ د نیا کے مشہو
لی کی نا زل کی ہو ئیں ر و معروف دا نشور اور علمی اعتبار سے جا نی ما نی ہستیاں ہللا تعا ٰ
کتا بوں کو سمجھ کرپڑ ھنے اور ان میں غو ر و فکر کر نے کی وجہ سے پیدا ئش ِ نو
) (Reincarnationکی آ خرت پر یقین رکھتے تھے ۔معروف عیسائی عا لم طر طو لین
علی الروح( )Treatise on the soulکے باب ۲۸ – ۳۳میں پیدا ()Tertullisnاپنی کتاب رسا لہ ٰ
ئش ِ نو ( )reincarnationپر سیر ِ حا صل بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مشہو ر ریاضی دان
فیثا غورث بھی پیدا ئش ِ نو پر یقین رکھتا تھا ۔
عیسا ئیوں کی پہلی تین صد یوں کے دوران نئے جسم میں تناسخ ِ ارواح (Transmigration of
) soulsکا یو نا نی فلسفہ عیسا ئیت پر نما یانطو پر چھا یا رہا جو تا ریخ میں افال طو نی
نظریات ) (Platonismکے نام سے جا نا جا تا ہے۔مشرق کے رو حا نی فلسفہ کے بر عکس
افالطون کا خیال تھا کہ روح انسا نی موت کے بعد عالم ار واح میں اپنے شعور اور ذات ِ منفرد ہ
کے طو ر پر ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ اور ہندو عقید ے کے بر عکس انسا نی روح نا تو خدا
بنتی ہے اور نا ہی وہ کسی اور طریقے سے اپنے وجود کا اظہار کر سکتی ہیں۔بلکہ نئے جسم
میں پیدا ہو کر دو با رہ دنیا میں آ جاتی ہیں۔افال طون اپنی ز ر نگ یعنی عقلی یا داشتوں
) (Phaedrusمیں لکھتا ہے کہ اگر کوئی روح احکام ِ ٰالہی پر عمل پیرا نہیں ہو تی اور سچائی
کا ادراک کر نے میں نا کا م رہتی ہے تو اس غفلت اور گنا ہ کی وجہ سے وہ مصیبتوں کے
دْگنے بو جھ تلے دب کر کچلی جا تی ہے جس سے اس کی پر واز کر نے کی صالحیت
چھن جا تی ہے اور وہ اْلٹے منہ زمین پر پٹخ دی جا تی ہے۔ روح اپنی پیدائش کے عمل سے
گزر نے کے بعد قا نو ن ِ ٰالہی کے تحت جب دو بارہ زند گی پا تی ہے تو وہ عام طور پر کسی
جا نور کے جسم میں نہیں جا تی بلکہ اسے انسا نی جسم ہی عطا کیا جا تا ہے۔اور وہ روح جس نے
سچا ئی کا راستہ اختیار کیا تھا اس کی پیدائش بطور فلسفی یا کسی بھی آرٹ ،کال اور پیشہ
کے ما ہر ِ فن مثالً ڈاکٹر ،انجینئر ،سائنس دان ،قانون دان ،ادیب ،استاد ،عالم وغیر ہ اور ہنستی
گا تی خوش طبع شخصیت کے ہو تی ہے۔
"But when she (the celestial soul) is unable to follow, and fails to behold the
truth, and through some ill-hap sinks beneath the double load of forgetfulness
and vice, and her wings fall from her and she drops to the ground, then the law
ordains that this soul shall at her first birth pass, not into any other animal, but
only into man; and the soul which has seen most of truth shall come to the
birth as a philosopher, or artist, or some musical and loving nature ".
افال طون مزید لکھتا ہے کہ ایک عام روح کو جہاں سے وہ چلی تھی واپس اْسی جگہ پہنچنے میں
دس ہزار سال لگتے ہیں۔صرف فلسفی اور مقر ب لو گ ہی کم وقت میں اپنے اصلی مقام پر
واپس پہنچتے ہیں۔جو روحیں مقصد ِ حیات کی تکمیل نہیں کر پا تیں اور جہا لت میں زند گی گزار
دیتی ہیں انکی دنیا وی موت کے بعد فیصلہ کر کے سزا تعین کی جاتی ہے اورانہیں اصالح
کےلئے زمین کے نچلے درجے کے گھروں میں بھیج دیا جا تا ہے ۔
In the same work, Plato states that "ten thousand years must elapse before the
soul of each one can return to the place from whence she came." Only the soul
of the philosopher or of the lover can get back to its original state in less time
(i.e., in three thousand years). The souls that fail to aspire to perfection and live
in ignorance are judged after their earthly life and then punished in "the houses
"of correction, which are under the earth.
افال طون کے خیال میں روحانی تطہیر کے لئے زندگی کا ایک دور کا فی نہیں اس لئے گناہ اور
اس کے بدلے میں ملنے والی سزا ئے قید کی نو عیت کے اعتبار سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ
درندہ صفت انسا نوں کو ان کے برے اعمال کے بدلے میں جا نور کی زندگی دے دی جائے اور
ایک خاص مدت کی قید کا ٹنے کے بعد یہ روحیں جا نور سے واپس انسانی جسم میں دو با
رہ پیدا ہوں اور با قی کی سزا بطو ِر انسان اس وقت تک بھگتیں جب تک ان کی مکمل تطہیر نہیں
پیدائش نو ) (reincarnationکا یہ افال
ِ ہو جاتی۔ روح کی پا کیز گی حاصل کر نے کے لئے
طونی نظریہ اگر چہ حیات و ممات کے بے شمار ادوار پر مشتمل ہے مگر اس نظر ئیے میں
ر وح کے سفر کا آ خری مقام برہمن کے نظر یہ ِ اتحاد با المطلق )(union with the Absolute
کے بر عکس ہر روح کا بذات خود اپنا ایک الگ پاکیزہ وجود ہے۔لہٰ ذا ،افالطون روح کی نجات
)(salvationکو انسان کی ذاتی بخشش کے طور پر لیتا ہے نا کہ خدا کے وجود میں جا ملنے کو۔
کلیسا کے با لکل ابتدائی دور میں افالطون کے مندر جہ با ال نظر یات کی چھاپ اور پیدا ئش ِ نو
کے بارے میں الہامی کتابوں میں دی گئی تعلیم وہ مصدقہ اور ان ِمٹ تا ریخی شوا ہد ہیں جنہیں
کسی طور بھی جھٹال یا نہیں جا سکتا۔ پیدا ئش ِ نو کے نظر یات میں تبدیلی عیسائی مذ ہب کے با
عیسی علیہ السالم کے حکم پر یا نزول ِ وحی کے سر پر نہیں کی گئی کیو نکہ اس ٰ نی حضرت
عیسی علیہ السالم دنیا سے رخصت فر ما چکے تھے۔لہٰ ذا عیسا ئیت میں یہ تباہ ٰ وقت تک حضرت
کن تبدیلی پال ) (Paulکی پیدا کردہ سیا سی وجو ہات کی بنا پر کی گئی جس کو ۵۵۳ م
عیسی علیہ
ٰ ری کی منظوری سے عیسا ئیت میں داخل کیا گیا۔ حضرت مجلس شو ٰ ِ میں قسطنطنیہ کی
السالم کی وفات کے بعد پال ) (Paulنے ان کی شریعت میں نبی ہو نے کا خود ساختہ مقام حا صل
کر لیا اور آج بھی عیسا ئی اس ملعون کو نبی بشریعت مسیح کا در جہ دیتے ہیں۔جس نے عیسا
عیسی علیہ السالم سے اتنی محبت دکھائی کہ ان کو
ٰ ئیو ں کو بے وقوف بنا نے کے لئے حضرت
اوپر خدا اور زمین میں خدا کا بیٹا بنا دیا۔ کالم ِ ٰالہی کے تراجم میں تبدیلی اور اس کے استعارات
)(Metaphorsکی خود سا ختہ تشر یح بھی مذ ہب کی دنیا )(Theologyمیں پہلی بار اسی مر دود
نے کی۔انجیل کی مختلف آ یات کے ٹکڑوں کو یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں مالکر اور وحی
کے مختلف الفاظ کے معا نی اپنے نظر یات کے مطابق ڈھال کر تفسیر لکھنے کی طرح بھی اسی
کمبخت نے ڈالی ۔ کا ئنات کا نظام چال نے والی طاقت خدا کی بجائے قوا نین الطبیعیہ
) (Natural Laws and Natural Forcesکی اصطالح بھی اسی کی ایجاد ہے۔جس کی تقلید میں
ہمیں بھی خدا کی ذا ت کو اٌٹھا کر ایک طرف رکھنے کا درس دیا جا نے لگا اور رب العا لمین
کے نام کی جگہ روز گا ِر کا ئنات چال نے والی ' کا ئنا تی قو توں ' نے لے لی۔ مر نے کے بعد
قیا مت تک ٹھاٹھ سے سو نے اور روز ِ قیا مت مر قد سے اْٹھ کر نجات حا صل کر نے کی جیسی
اخترا عات نکالنے کا سہرہ بھی اسی کے سر ہے۔
مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے علماء نے اسی مردود کی تقلید میں قر آن کے تراجم اور
تفسیریں لکھ دیں۔ہم نے اپنے علماء کی تحریریں پڑ ھنے سے پہلے اگر پال اور پوپ کو پڑھ لیا ہو تا
تو دودھ کا دودھ اور پا نی کا پانی نتھر کے سا منے آ جاتا اور یہ جا ننے میں با لکل بھی دیر نہیں
لگتی کہ ہمارے علما ء نے اپنے غور و فکر کو استعمال کر کے خو د سے کو ئی تحقیقی کام
نہیں کیا بلکہ ہمیں مر غوب کر نے کے لئے پال اور پوپ کو پڑھ کر انہیں کے نظر یات سے اپنی
کتا بیں بھر دیں۔ مر زا غالم احمد قا دیا نی نے مسیح المو عود ب ننے کا خیال بھی پال سے چرا
یا کیو نکہ پال ہی وہ پہال شخص تھا جس نے اپنے آپ کو نبی بشریعت ِ مسیح کہالیا ۔بلکہ
حقیقت تو یہ ہے کہ ہما رےفا ر ورڈ بالک ) (Forward Blockکے سبھی چھوٹے بڑے علما
ء اسی کی نقل کر کےادبی سر قہ بازی میں ملوث ہیں۔کوئی ایک بھی ایسا نا م نہیں جس نے
قر آن کے تر جمے یا تفسیر کا کام عین قر آنی تعلیمات کے مطا بق کیا ہو۔حیا ت و مما ت کے قد
تصور بے معنی ّ رتی نظا م کو سمجھے بغیر کا مل انصاف اور احتسا ب کا مو جو دہ
ہے۔اسی لئے آ خرت کے اس نظام کو ایما ن کا ال زمی حصہ بنا یا گیا جس پر یقین ِ کا مل کئے
بغیر ایمان مکمل نہیں ہو تا ۔ ایمان ہی مکمل نہ ہوا تو کر دار کیا درست ہو گا اور پھر صراط ِ
مستقیم کہاں جا نے کے لئے ملے گا کیونکہ منزل تو ہمیں معلوم ہی نہیں !
حقیقت ِ آ خرت کے با رے میں سا ئنس اور منطق سے علمی دالئل د ئیے جا ئیں تو جواب آ
تا ہے کہ " یہ قر آن میں نہیں " اور اگر قر آن سے ہی ثا بت کیا جائے تو ' ميں نئی بول
دی ميرے وچہ ميرا يار بول دا ' کے مصداق ا ٌن آ یات کا حوالہ دے کر جن میں کچھ اور کہا
جا ر ہا ہے ،قر آن کو صرف قر آن سے ہی سمجھنے کے واعظ مقرر کے ساتھ یہ بھی دھرا
یا جا تا ہے کہ فالں صا حب نے آ خرت کے با رے میں کیا کہا اور فالں صا حب نے فالں
کتاب میں کیا لکھا ۔ یہ کیسے ' خا لص قر آن ' کی بات ہو رہی ہے جس کو سمجھنے اور سمجھا
نے کے لئے ادھر اْد ھر سے اکٹھے کئے ہو ئے غیر قر آ نی مواد کے منوں اور ٹنوں کے
حساب سے حوا لے د ئیے جا تے ہیں ؟ جب قر آن سے پہلے نا زل کی ہوئیں کتا بوں سے حوا لہ
جات پیش کئے جا تے ہیں تو دو ٹوک جوا ب آ تا ہے کہ ان کتا بوں کو تو ہم ما نتے ہی نہیں
! سمجھ نہیں آ تی کس قر آن کی بات ہو رہی ہے؟ کم از کم یہ وہ قر آن نہیں جو محمد ِ عر
بی ﷺ پر نا زل ہوا تھا۔ اْس میں تو آ خرت پر ایمان ال نے اور قر آن سے پہلے ہللا کی نا زل کر
دہ کتا بوں پر بھی ایمان ال نے کا حکم ہے۔ البتہ اگر ہم یہ سوچ کر ان کتا بوں کو رد کر چکے
ہیں کہ بے شمار ترا میم اور تبدیلیوں کی وجہ سے یہ کتا بیں اب وہ نہیں رہیں جن پر ایمان ال
نے کا حکم دیا گیا ہے تو بھی ہم غلطی پر ہیں کیوں کہ ان کتا بوں میں جو بھی مبینہ تبدیلیاں
ہو ئیں تھیں وہ سب عیسا ئیت کے دو ر ِ ٗاول میں ز ما نہ ِ نزول ِ قر آن سے بہت پہلے کی با تیں
ہیں اور ہما را علم ہللا سے ذیا دہ نہیں جس نے پھر بھی ان کتا بوں پر ایمان ال نے کا حکم
دیا۔نزول ِ قر آن کے بعد ا ن کتا بوں کے ترا جم ضرور بد لے ہوں گے مگر متن نہیں بد ال
جس سے ان کتا بوں کی اصل حیثیت پر کو ئی فرق نہیں پڑ تا ۔تا ریخ گواہ ہے اور اہل ِ علم بھی جا
نتے ہیں کہ یہ کتا بیں نزول ِ قر آن کے وقت بھی ایسی ہی تھیں جیسی آج ہیں ۔ بلکہ جب قر آن
نا زل ہوا تو یہی با ئبل مکہ مکر مہ میں بھی مو جود تھی ۔ جی ہاں انجیل پر ایمان ال نے کا
لی کو اس بات کا بھی بخو بی علم تھا کہ انجیل حضرت عیسی ٰ حکم دینے سے پہلے ہللا تعا ٰ
علیہ السالم کے د نیا سے ر خصت ہو جا نے کے بہت بعد ان کے شا گر دوں نے لکھی مگر ہم
پھر بھی اس پر ایمان نہیں ال تے اور سو چتے ہیں کہ یہ کیسی وحی ہے جسے کسی نبی نے
کا تبین ِ و حی کو اپنے سا منے بٹھا کے نہیں لکھوا یا ؟ کیوں کہ ہما ری سوچ ایک ہی
جگہ اٹکی ہوئی ہے اور ہم یہ سو چتے ہی نہیں کہ ہر ز ما نے کا ایک اپنا ما حول ہو تا ہے
عیسی علیہ السالم جنٰ جس میں ہر کام اس ز ما نے کے حا الت کے مطا بق ہو تا ہے۔ حضرت
حا الت میں د نیا سے رخصت ہو ئے ان حا الت میں وحی کی کتا بت ان کے بعد ہی ممکن تھی
۔ جو کہ ضروری نہیں کہ غلط ہی ہو کیونکہ کالم ِ ٰالہی کے حفاظ ہر دور میں رہے ہیں جنہوں نے
ہللا کی وحی کو سینہ بسینہ اور لفظ بلفظ آ گے پہنچا یا۔ یہ کالم ہللا ہے کوئی بخا ری کی روا
فتوی صا در کر دیں کہ دادا سے پو تے تک با ت پہنچتے ٰ یتیں نہیں جن پر ہم جھٹ سے
پہنچتے اس میں فرق آ جاتا ہے۔ حقی قت تو یہ ہے کہ آج جو قر آن ہمارے پاس اپنی مکمل اور
لفظ بلفظ صحیح حا لت میں مو جود ہے وہ بھی حفا ِظ کرام ہی کی مر ہون ِ منت ہے اور ہما را
لی نے قر آن کی حفا ظت کا جو وعدہ کیا ہے وہ اسے ہر حال میں پو ایمان بھی ہے کہ ہللا تعا ٰ
را کر تا ہے۔ غور کر نے سے معلوم ہو تا ہے کہ ہما رے نبی ِ کریم محمد ﷺ کے دو ر کے حا
الت گزشتہ انبیا علیہ السالم کے ادوار سے قطعی مختلف تھے جن کا بہترین استعمال کر تے ہو
ئے انھوں نے کا تبین ِ وحی سے قر آن لکھوا کر اپنی حیا ت ِ مبار ک میں ہی کتا بی شکل
میں محفوظ کرلیا تھا ۔ ہم صرف انجیل پر ہی شبہ کیوں کریں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تو رات
اور ز بو ر کی بھی کسی کو کچھ خبر نہیں کہ انہیں کس نبی علیہ السالم نے کب اور کو نسے کا
تبین ِ و حی کو اپنے سا منے بٹھا کے لکھوا یا تھا؟ اہل ِ کتاب کے مز کو رہ مجمو عا ت میں
سی علیہ السالم سے بہت پہلے نا زل کئے ہو ئے کچھ صحا ئف بھی شا مل ہیں ۔ وہ حضرت مو ٰ
سی علیہ السالم نے وحی کا کتنا حصہ خو د لکھا اور کتنا ان کس نے لکھے؟ اور حضرت مو ٰ
کے بعد لکھا گیا ؟ مگر پھربھی ۶۱۰ اور ۶۳۰ عیسوی کے دورا ن نا زل ہو
نے والے قر آن میں ان کتا بوں پر ایمان ال نے کا حکم دے دیا گیا۔ اور انبیا ء علیہ السالم پر نا زل
کی ہوئیں کتا بوں کی تصدیق کر کے انہیں ہما رے ایمان کا حصہ بنا دیا گیا ۔ جس طرح مختلف
انبیا ء علیہ السالم کے د ر میان تخصیص خا لصتا ً ان کی ذ مہ داریوں اور ا ستطا عت
بعینہ
ٖ کے لحا ظ سے کی گئی اور ان کی عزت و تو قیر میں فرق نہ رکھنے کا حکم دیا گیا
ان جلیل القدر انبیا ء علیہ السالم کو دی گئیں کتا بوں کو ما ننے کا حکم بھی وا ضح طو ر پر
دیا گیا ۔ قر آن ان کتا بوں کو رد نہیں کر تا بلکہ ان کی تصحیح کرتا ہے ۔لہٰ ذا ،اب انسان کا کام
کو قر آن کی روشنی میں غلطیوں سے پاک کر کے سنبھال لے۔ ہے کہ ان کتا بوں
ری ہی ان کتا بوں کو سمجھ کر آ خرت کی المیئے کا مقام ہے کہ نہ تو اہل ِ کتاب یہو دو نصا ٰ
حقیقت جا ننے کے لئے تیا ر ہیں اور نا ہی امت ِ مسلمہ ۔ جبکہ قر آن ،انجیل ،تورات ،زبور
لی کی طرف سے قر آن سے پہلے نا زل کئے ہو ئے تمام صحیفوں میں اور ہللا تبا رک تعا ٰ
آخرت کا بیان پیدا ئش ِ نو کی کی تکرار ِ مسلسل کے ساتھ آ ر ہا ہے۔
ہم شروع میں تورات ) (Torahکی آ یات کا مطا لعہ کر چکے ہیں جن میں پا قا رین ِ کرام
تال یا شیول ) (sheolسے زمین پر قا ئم ہو نے والی دوزخ یا اس جہنم کا حوا لہ د یا گیا
جس میں بد اعمال لو گوں کو ان کی موت کے بعد سزا کے طو ر پر بھیجا جائے گا ۔جب وہ
لوگ سزا بھگت کر دو با رہ واپس جائیں گے تو پھر نئے سرے سے حساب کتاب ہو گا جس کے
بعینہ کتا ب الوحی کے حصہ ّاول میں جنتی
ٖ مطا بق ان کی آ نے والی زند گی مر تب ہو گی۔
روحوں کو سفید لباس ) (White Robesد یئے جا نے کا مطلب انہیں آ ئندہ خوش بخت زند گی
دیا جا نا ہے۔اگر موت کے بعد کوئی دو بارہ زندہ ہی نہیں کیا جائے گا تو مندر جہ ذیل وحی میں
اعلی لباس باہم پہچا نے کا کو ئی مطلب نہیں۔
ٰ بیان کی ہوئی امارت اور
Then each of them was given a white robe, The Book of Revelation 6:11
پھر ان میں سے ہر ایک کو سفید لباس دیا گیا تھا۔کتاب الوحی ۶:۱۱
He who overcomes will, like them, be dressed in white. Revelation3:5
جو اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے ،ان لو گوں کی طرح ،سفید لباس میں ملبوس کیا جا تا ہے.
مکاشفہ (و حی) ۳ : ۵
;I counsel you to buy from me gold refined in the fire, so you can become rich
Revelation 3:18۔ and white clothes to wear
میں تمھیں مشو رہ دیتا ہوں آگ میں نکھرا ہوا سو نا مجھ سے خریدنے کے لئے ،تاکہ تم
دولت مند بن سکو اور سفید کپڑے پہن سکو۔ وحی ۳:۱۸
مندر جہ با ال آ یات سے یہ ظا ہر ہو تا ہے کہ جنت اور دو زخ ہما رے اعمال کے نتیجے میں
زمین پر ہی قا ئم ہو ں گی اور و حی کی مندر جہ ذیل آ یت ۲۰:۶اور ۲:۱۱میں یہ بتا دیا گیا
کہ قیا مت جسے ہما رے غیر قر آ نی عقا ئد نے ہم سے بہت دور کر دیا وہ ہما رے اس دنیا
سے رخصت ہو تے ہی قا ئم ہو جا ئے گی۔
Blessed and holy are those who share in the first resurrection. The second death
has no power over them, but they will be priests of God and of Christ and will
(reign with him for a thousand years.) Revelation 20:6
مبارک اور مقدس ہیں وہ لوگ جو پہلی قیا مت میں حصہ لیتے ہیں۔دو سری موت ان پر کو ئی
اختیار نہیں رکھتی ،کیونکہ وہ خدا کے بر گذیدہ بندے ہوں گے اور مسیح کےاور اس کے ساتھ
ہزار سال تک راج کریں گے۔(وحی ) ۲۰:۶
Whoever has ears, let them hear what the Spirit says to the churches. The one
(who is victorious will not be hurt at all by the second death. )Revelation 2:11
جس شخص کے کان ہیں وہ سن لے روح المقدس کلیسا والوں سے کیا کہتا ہے ۔ کا میاب شخص کو دو
سری موت کی تکلیف نہیں دی جائے گی۔(وحی )۲:۱۱
آن کریم کی سو رة الدخان کی آیت ۴۴:۵۶میں بھی وحی کی مندر جہ با ال قا رین کرام قر ِ
آیت ۲۰:۶کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے فر ما یا جا رہا ہے کہ پر ہیز گار لوگوں کو پہلی
موت کے سوا کوئی اور موت نہیں آ ئے گی۔یعنی ان کے لئے قیا مت ان کی پہلی موت کے بعد ہی
قائم ہو جا ئے گی او ر جو لوگ راست بازی اور پر ہیز گاری کے مقررہ معیار پر پورے نہیں
اتریں گے ان کے لئے کئی اموات اور ہر موت کے بعد نئی قیامت ہوگی۔ لہٰ ذا ،قیامت کا کوئی ایک
دن مقرر نہیں اور نہی یہ ہما رے موجودہ عقیدے کے مطا بق کسی غیر معینہ مدت تک ٹا لی جا ئے
گی۔قیامت کا مطلب تو کسی عمل کے قائم ہونے )(to establish somethingسے ذیا دہ کچھ نہیں
مگر افسوس کہ ہم صرف لفظ ' قا ئم ہو نے ' کا ہی ڈہنڈورہ پیٹے جا رہے ہیں لیکن جو کچھ قا ئم
ہو گا اس کی بات ہی نہیں کرتے ما سوائے اس کے کہ اس دن پہاڑ روئی کے گا لے بن کر اْ ڑ جا
ئیں گے ،آ سمان پھٹ جا ئے گا ،چا ند بے نور ہو جا ئے گا اور سو رج بھی با قی نہیں رہے گا۔یہ
تو موت کے و قت حا لت ِ نزع میں انسان کی اندونی کیفیات کا بھی اشارہ ہے اور اس سے یہ
بھی بتا نا مقصو د ہے کہ روح اور جسم کا مو جو دہ مجموعہ ) (combinationجو حا لت ِ
نزع میں ہے وہ اس موت کے بعد نہ تو یہ سو رج دیکھے گا نہ چا ند ۔ نا ہی یہ آ سمان دیکھے گا
اور نا ہی یہ زمین اور اس پر موجود پہاڑ ۔یعنی روح اور جسم کے مالپ سے ملنے والی اس زند
گی کا سو رج ڈوب رہا ہے۔ دنیا میں اس شخص کی حیثیت ،مر تبے اور شان و شو کت کا
چراغ (چاند)بھی بجھ رہا ہے۔ اس شخص کے زمین پر کھڑے کئے ہو ئے محالت اور بلند و با ال
عما رتیں زمین بو س ہو رہی ہیں۔ آج غرور و تکبر کے سب پہا ڑ ٹو ٹ کر ریزہ ریزہ ہو جا ئیں
گے کیو نکہ واپسی کی سوا ری تیار ہے۔ اعما ل اچھے ہوئے تو اگلے جنم میں غم کے دن ختم ہو
جا ئیں گے ور نہ ہمیشہ کے لئے یعنی اگلے جنم کی پو ری زند گی میں غموں اور مصیبتوں کے
پہا ڑ ٹو ٹتے رہیں گے ۔ حا لت ِ نزع میں جب ان سب با توں کا احسا س ہو تا ہے تو انسان بڑ
بڑا تا ہے کہ اگر اس کی جان بخش دی جا ئے تو واپس جا کر وہ ایسے کام نہیں کرے گا جن کی
وجہ سے وہ آج مصیبت میں گرفتار ہے۔ قر آن ان کی اسی حالت کو بیان کر تے ہوئے کہتا ہے کہ
یہ فقط بڑ بڑا رہے ہیں ۔ آج کچھ بھی ان کے کا م نہیں آ ئے گا۔قر آن اور اس سے پہلے نا زل کی
ہو ئیں کتا بوں میں ایسے حوا لہ جات جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں جو اسی مضمون کی اگلی
یسعیاہ اقساط میں آ پ کی خد مت ِ عالی میں پیش کر د ئیے جا ئیں گے ۔لیکن فو ری حوا لے
کی مندر جہ ذیل آ یات ۶۰:۱۹ - ۲۰کو سمجھ کر پڑ ہنے سے بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔
The sun will no more be your light by day, nor will the brightness of the moon shine on you,
for the LORD will be your everlasting light, and your God will be your glory. Your
sun will never set again, and your moon will wane no more; the LORD will be your
)everlasting light, and your days of sorrow will end. (Isaiah 60:19-20
اس دن سو رج کی روشنی تم پر ماند پڑ جائے گی ،چاند تم پر بے نور ہو جا ئے گا ،ہمیشہ رہنے
والی روشنی تمہارے رب کی ہی ہو گی اور تمہارے خدا کا جالل باقی رہے گا۔تمہا را سو رج
دہ بارہ قائم نہیں ہو گا اور تمہا رے چاند سےاْتار چڑ ھاؤ کا احساس جا تا رہے گا ،اور تمہا
رے غم کے دن ختم ہو جائیں گے۔ ( یسعیاہ) ۶۰:۱۹ - ۲۰
قا رین ِ کرام جیسا او پر بتا یا جا چکا ہے کہ لفظ قیا مت کسی چیز کے قائم ہو نے کا نا م ہے
جس میں رو نما ہو نے والے وا قعات کا سلسلہ موت سے شروع ہو کر حسا ب کتا ب اور اس
کے مطا بق اسی روح کو نئے جسم کے ساتھ دو با رہ زند گی ملنے تک چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ قیا مت کو یوم المبعوث یعنی دو با رہ پیدا ہو نے کا دن بھی کہا گیا ہے۔ مگر قر آ نی یوم
المبعوث کو عیسا ئیوں کی نقل میں ہما رے متر جمین نے بھی انگریزی ترا جم میں ریسرکشن
) (Resurrectionہی کہا ہے جسے عیسا ئیوں کے نظر ئیے کی رو سے دیکھیں گے تو ہما رے
علما ء ِ کرام کے علم کی بھی قلعی کھل جائے گی اور یہ بھی معلوم ہو جا ئے گا کہ ریسریکشن ا
صل میں ہے کیا ؟ مگر افسوس بھی ہو گا کہ ہم قر آن کے تراجم میں یہ لفظ استعمال کر کے نا
سمجھی میں شرک جیسا گنا ہ ِ عظیم کیوں کر تے رہے؟ ہما رے علما ء الکھ صفا ئی دیں کہ ا س
لفظ سے ہم وہ مراد نہیں لیتے جو عیسا ئی لیتے ۔ یہ با ت ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی یہ کہے کہ
شرک ہم بھی کر تے ہیں مگر ایسا نہیں کر تے جیسا ہندو کر تے ہیں ۔ کیونکہ شرک بذا ت ِ خود
اپنی تعریف میں اپنے خا ص معا نی رکھتا ہے جو کسی کے کہنے سے بد ال نہیں کر تے۔ اسی
طرح ریسرکشن )(Resurrectionکی بھی مخصوص تعریف ہے جو ہندو ،مسلمان ،عیسا ئی اور
یہو دی سب کے لئے ایک جیسی ہے۔ اسی تصویر کا دو سرا رخ یہ بھی ہے کہ اگر ریسرکشن
)(Resurrectionکی بجا ئے قر آن کے تر جمے میں کو ئی دو سرا لفظ لگتا تو وہ ' ری انکا ر
نیشن ' ) (Reincarnationیعنی پیدا ئش ِ نو یا ' ری برتھ ' ) (Rebirthیعنی دوسرا جنم ہو تا ۔ جو
ہمارے علما ء کے زرتشی اور پا لی ) (Pauliنظر یات کے خالف ہو تا۔ اس صو رت ِ حال میں ان
کی مال ئیت کا کیا ہو تا ؟
ہزا روں سال ریسرکشن )(Resurrectionکے لفظ کا مطلب ،تعریف اور عقیدہ
سے عیسا ئیوں کا ایمان بااآل خرة چال آ رہا ہےجس کے مطا بق جب کوئی شخص مر تا ہے تو
اس کے مر دہ جسم کے سا تھ اس کی روح بھی قبر میں قیا مت تک کے لئے سو جا تی ہے۔ عیسا
عیسی علیہ السالم کی فرشتوں کے ساتھ آ سمان سے مبیّنہ
ٰ ئیو ں نے ریسرکشن کی تعریف حضرت
عیسی علیہ السالم آ سمان سے ا ْ
ٰ تصور سے کی ہے جس میں "حضرت
ّ واپسی کے من گھڑت
تر نے کے بعد قبروں میں سو ئے ہو ئے ْمر دوں کو جگا کے پہلے ہمیشہ کے لئے زندہ کریں
گے پھر ان کی بخشش کرا ئیں گے "۔ اور ال شیں قبروں سے نکل کر با لکل ویسے ہی رینگنے
پر مبنی فلم ' زندہ ْمر دوں بااآل خرة ہا لی وڈ والوں نے عیسا ئیت کے ایمان لگیں گی جیسے
کی رات' ) (Night of the Living Deadمیں منظر کشی کی ہے۔ مو جو دہ عیسا ئی نظر ئیے کی
عیسی
ٰ رو سے اس وا قعہ کو قیا مت کہا جاتا ہے۔ یہ غلط فہمی عہد ِ ّاول کے کلیسا نے حضرت
عیسی علیہ السالم
ٰ اعلی تعلیما ت کو پس ِ پشت ڈال کر پیدا کی جن میں حضرت
ٰ علیہ السالم کی اْن
کی نے پیدا ئش ِ نو یا سو ئے ہوئے ْمر دے کو جگا نے )(awakening or reincarnation
پہلے سے مو جو د کسی تعریف ایسے کی ہے کہ 'کسی نئے جسم میں روح کی دو با رہ پیدا ئش
زندہ جسم کے اندر ہی ہو تی ہے' یعنی کسی ماں کے پیٹ میں۔ نا کہ صرف روا یتی قیا مت کے دن
عیسی علیہ السالم لو گو ں کو بخشوانے کے لئے آ سما نو ں سے اْتریں گے۔
ٰ حضرت
ایوب ۱:۲۱کا مندر جہ ذیل حوا لہ اس ضمن میں دلیل ہے۔ جس میں حضرت ایو ب علیہ السالم
لی نے پیدا ئش ِ نو ) (Reincarnationکی و ضا حت ماں کے پیٹ سے
کے ذ ر یعے ہللا تعا ٰ
دو بارہ پیدا ہو نے کے عمل سے فر مائی ہے۔یہا ں ایو ب علیہ السالم توقع کر رہے ہیں کہ وہ دو
با رہ پیدا ہو نے کے لئے ماں کے پیٹ میں جا ئیں گے۔
"Naked I came from my mother’s womb, and naked I shall return there. The
Lord gave and the Lord has taken away. Blessed be the name of the Lord.”( Job
)1: 21
میں اپنی ما ں کے پیٹ سے ننگا آ یا تھا ،اور ننگا وہیں وا پس جا ؤں گا۔ رب نے دیا اور رب نے
ہی لے لیا ۔ مبا رک ہو رب کا نام۔ایو ب۱:۲۱
اس کے عال وہ ایو ب کی آ یات ۱۹:۲۵،۲۶،۲۷میں حضرت ایوب علیہ السالم نے نہا ئت سا دہ
الفاظ میں پیدا ئش ِ نو کا سا ئیکل ایسے بیان کیا ہے کہ مر نے کے بعد جب ان کا جسم ختم ہو
جائے گا تو ایک بار پھر سے انہیں نئے گو شت کا جسم عطا کر دیا جا ئے گا۔پھر وہ ،کوئی دو
سرا نہیں یعنی و ہی روح نئے جسم کے ساتھ ا پنے رب کو د یکھے گی۔ رب کو دیکھنے کا
مطلب اس کی کا ری گری اور اس کی بنا ئی ہو ئی دنیا دیکھنے سے ہے جس سے یقینا ً رب کا و
جود دکھا ئی دیتا ہے۔
Job 19:25 I know that my Redeemer lives, and that in the end he will stand upon
the earth. 19:26 And after my skin has been destroyed, yet in my flesh I will see
God; 19:27 I myself will see him with my own eyes-I, and not another. How my
!heart yearns within me
میں اپنی زند گیوں کے نجا ت د ہندہ کو پہچا نتا ہو ں ،اور یہ کہ دنیا میں آخر تک وہی قا ئم رہے
گا۔ایوب ۱۹:۲۵
اور اپنا جسم ختم ہو جا نے کے بعد ،بھی میں اپنے گو شت والے جسم کے ساتھ خدا کو دیکھو ں
گا۔ایو ب ۱۹:۲۶
میں بذا ت ِ خو د اسے اپنی آ نکھو ں سے دیکھوں گا۔میں خود ،مجھ میں کو ئی دو سرا نہیں۔میرا دل
اندر سے کتنا بے تاب ہو رہا ہے ! ایو ب ۱۹:۲۷
ایوب ۳۰:۲۳میں حضرت ایو ب علیہ السالم مو ت کے بعد زندہ ہو کر دنیا میں واپس آ نے
کا تا ئیدی بیان ان الفا ظ میں دیتے ہیں ۔
(Job 30:23 ). "For I know that You will bring me to death And to the house of
meeting for all living .
میں جانتا ہوں کہ آ پ مجھے موت دیں گے اور زندہ لوگوں کی دنیا میں واپس لے آ ئیں گے۔
(ایوب )۳۰:۲۳
” "The house of meeting for all livingزندہ لوگوں سے مال قات کا گھر یعنی زمین میں بسنے
والے زندہ لوگ در اصل دنیا میں واپس بھیجنے کا حوالہ ہے۔قر آن بھی اس کی جا بجا تا ئید کر
نے کے ساتھ ساتھ سا ئنسی اندا ز میں بر زخ کی بھی تعریف کر تا ہے جس میں موت کے بعد اچھی
اور بری دو نوں ار واح مقیم ہوں گی۔ بر زخ اپنی قر آ نی تعریف کے مطا بق وہ ِجھلّی ہے جو دو
ما دی اجسام کو ساتھ لے کر بھی چلتی ہے اور انہیں جدا جدا بھی رکھتی ہے۔ماں کی کو کھ یا بچہ
دانی کی جھلی یا پرہ بھی ماں اور بچے کی دو زند گیوں کو بچے کی پیدا ئش تک الگ الگ بھی
رکھتا ہے اور ساتھ ساتھ بھی لے کر چلتا ہے۔ عالم ِ بر زخ کی اس سا ئنسی تعریف کے عالوہ ہما
رے ترا جم اور تفسیروں میں کی ہو ئیں اٹکل پچو تعریفوں کا اطالق عملی طو ر پر کہیں نہیں ہو
تا۔
کتب ِ متفقہ) (synoptic gospelsیعنی متی ،مرقس اور لو قاکی انجیلوں میں دو بارہ پیدا ئش
) (Reincarnationکا ایک اور مستند حوالہ آ پ کی خد مت میں حا ضر ہے۔جس میں حضرت
عیسی علیہ السالم نے ان کا ساتھ دینے والوں کو اگلی زند گی میں مو جو دہ زند گی سے سو گنا ذیا
ٰ
دہ گھر ،ماں باپ ،بھائی بہن ،بیوی بچےاور زمین ملنے کی نوید سنائی گئی۔
"No one who has left home or brothers or sisters or mother or father or wife or
children or land for me and the gospel will fail to receive a hundred times as
much in this present age - homes, brothers, sisters, mothers, children and fields
)... and in the age to come, eternal life." (Mark 10:29-30
جس کسی نے بھی میرے لئے اور انجیل کے لئے اپنا گھر یا بھائی یا بہنیں یا ماں یا باپ یا
بیوی یا بچے یا زمین کو چھو ڑا وہ آ نے والی ہمیشہ کی زند گی میں اپنی مو جو دہ زندگی سے
سو بار زیا دہ اپنے گھ ر ،بھا ئی ،بہنیں ،مائیں ،بچے اور زمین حا صل کرنے میں نا کام نہیں ہو
گا۔(مر قس ) ۱۰ :۲۹-۳۰رواں تر جمہ
لی کا یہ با الواسطہ وعدہ دو بارہ پیدا ئش ) (Reincarnationکے غور فر مائیے کہ ہللا تعا ٰ
بغیر کیسے پو رہ ہوا ہو گا؟ کسی انسان کی زند گی کے ایک دور میں ماں باپ کا صرف ایک
عیسی علیہ السالم کے ستّر شا گرد جنہوں نے اپنےٰ ہی مجمو عہ ) (Setہو سکتا ہے ۔حضرت
گھر اور خا نوادے ر ضا ئے ٰالہی کے لئے چھو ڑے انہیں ان کی اْسی زند گی میں ہر ایک کو سو
سو بیو یاں ،سو سو گھر اور اتنے ہی خا نوادے کیسے ملے ہوں گے؟ اس کا جواب تو ان کی
عیسی علیہ السالم نے
ٰ کم از کم سو بار پیدا ئش )(Reincarnationسے ہی ممکن ہے۔ اگر حضرت
صرف سو سو بہن بھائیوں کا ہی وعدہ کیا ہو تا تو بات الگ تھی مگر دو بارہ پیدائش کو نہ ماننے
والے کلیسا کے پاس سو سو بیویوں ،سو سو گھروں اور سو سو ما ؤں کے ملنے کے بارے میں
کوئی جواب نہیں ۔ کیا ان لوگوں سے جھو ٹا وعدہ کیا گیا تھا جنہوں نے خدا کے راستے میں قر با
نیاں دیں ؟
عبرا نیو کی مندر جہ ذیل آ یات ۹:۲۷اور ۹:۲۸کے غلط تراجم کر کے ٖ صرف ایک بار موت
کے بعد قیا مت کے دن سب کا اکٹھا حساب کتاب ہونےکا عقیدہ گھڑا گیا۔ان آیات کے رائج اور
مصدقہ انگریزی تر جمے کی ہو بہو نقل اور اس کا اردو تر جمہ آ پ کی خد مت میں حا
ضر ہے۔
27 Justas people are destined to die once, and after that to face judgment, 28 so
Christ was sacrificed once to take away the sins of many; and he will appear a
second time, not to bear sin, but to bring salvation to those who are waiting for
)him. Hebrews 9:27-28 New International Version (NIV
لوگوں کو ایک بار مر نے کے بعد فیصلے کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔اس لئے مسیح نے سب کے گناہ
لینے کے لئے ایک بار قر بانی دی ۔اور وہ د و سری بار آ ئیں گے ،گناہوں کا بوجھ اْ ٹھا نے کے
لئے نہیں بلکہ بخشش لے کر ان لو گوں کی جو ان کا انتظا ر کر رہے ہیں۔عبرا نیو - ۲۸
۹:۲۷
با ئبل کے تمام تسلیم شدہ نسخہ جات میں آپ کو ان آ یا ت کا تر جمہ ما سوائے ایک آدھ لفظ کے
انداذ بیان با لکل ایسا ہے جیسے کو ئی
ِ ہیر پھیر سے قریبا ً ایک جیسا ہی ملتا ہے۔آ یت ۹:۲۷کا
یہ کہے کہ " بندوق کا گھو ڑا ایک بار دبا تے ہی گولی چل جا تی ہے" انگریزی میں اسے اس
طرح کہیں گے ) "، (Once the trigger is pulled the bullet is firedآگ کو ایک بار ْچھو لیا
تو جل جا ئیں گے") (Once you touch the fire it will burnیا "قا نون تو ڑا تو سزا ہو جا
ئے گی") (Once you break the law you will be sentencedصرف و نحو کے قوا عد کی
رو سے ایسے شر طیہ جملے ہر زبان میں ملتے ہیں جن میں "ایک بار') (onceگنتی یا شمار کے
حساب سے ایک بار نہیں بلکہ محا ورہ تا ً " جو نہی" ) (As soon asکے معا نی میں استعمال ہو
تا ہے۔جس سے یہ مراد لی جا تی ہے کہ کسی کا م کے عمل پذیر ہو تے ہی اس سے مشروط کوئی
اور عمل بھی شروع ہو جا تا ہے۔ جیسے بندوق کا گھوڑاہمیشہ کے لئے ایک ہی بار تو نہیں دبا یا
جاتابلکہ جب جب گھو ڑا دبا یا جا ئے گا گو لی چلے گی ،ایسے ہی ج تنی بار بھی آگ کو چھو ئیں
گے ہاتھ جلے گا اور اگر بار بار قا نون شکنی کریں گے تو بار بار سزا ملے گی۔اس نظر سے
عبرا نیو کی آ یت ۹:۲۷کو دیکھیں گے تو مطلب صاف سمجھ میں آ تا ہے کہ "جتنی بار بھی موت
واقع ہو گی ہر موت کے بعد حساب کتاب ہو گا" یا جو نہی موت آ ئے گی حساب کتاب شروع ہو جا
ئے گا۔ اس کے عال وہ وحی (المکا شفۃ) ۲۰:۶اور ۲:۱۱میں ہم تفصیالً مطا لعہ کر چکے ہیں
کہ موت صرف ایک بار نہیں بلکہ ایک سے ذیا دہ بار آ تی ہے۔یوحنا ۱۱:۱۱ -۱۶میں ایک جذا
می) (Lazarusاور کئی اور لو گوں کے موت کے بعد زندہ ہو نے اور دو بار ہ مر نے کا بیان
تفصیل سے ملتا ہے۔کرنتھیوں اول ۱۵:۲۰میں بھی دو بارہ زندہ ہو نے کا بیان ہے۔ ان تمام حوالوں
سے بھی یہ ثا ب ت ہو تا ہے کہ عبرا نیو کی زیر ِ نظر آیت ۹:۲۷کا مطلب وہ نہیں جو کلیسا نے
صرف ایک بار آ نے وا لی مو ت کے ضمن میں لیا ہے۔اب ہم عبرا نیو کی مز کو رہ آیات
۹:۲۷اور ۹:۲۸کاصحیح تر جمہ منظر ِ عام پر ال نے کےلئےان آ یا ت کا اصل متن آ پکی خد
مت میں پیش کر تے ہیں ۔
ایسا نظام تشکیل دیا گیا ہے کہ انسان کےایک بار مر تے ہی اس پر فیصلے کی گھڑی آن
پہنچتی ہے۔عبرانیوں ۹:۲۷
انجیل کے باب نہم کی اٹھائیسویں آ یت کی وحی کے الفاظ یو نانی لفظ ' οὕτωςاوٹوز 'سے
شروع ہوتے ہیں جو ' ہو ٹوس' Hotosمصدر کا مخرج ہے جس کا مطلب ' اس طرح ' ،اس
طریقے سے ،اس کے بعد) ' (in this manner, thus or after thatہے ۔اگال لفظ ' کا ہی' καὶ
حرف ربط ) (conjunctionہے جس کا مطلب ' پھر ،اور ،بھی ،یہاں تک کہ '(and, also, ِ
)even, so thenہو تاہے۔پھر اسم ِ ضمیر ) ‘ (Pronounھو ' آتا ہے جو واحد مذکر ہے اور
یکساں طور پر عورت ،مرد اور کسی اکیلی چیز کے لئے استعمال ہو تاہے)(he, she , it, that۔
اس کے بعد کا لفظ ‘ Χριστὸςکھرستوز ‘ ہے ۔ جس کا مطلب انگریزی لغات میں' انو ئنٹڈ
' ) (Anointedہے۔یعنی عورت کے رحم کی رطوبت )،(Smearگند مند میل کچیل ،داغ
دھبوں اور آ الئش سے لت پت ۔ کچھ فا ضل حضرات اس لفظ کو تیل یا گریس کے کوٹ اور
عورت کی بچہ دانی کی رطو بت) (smearکے معنی میں لے کر گنا ہوں کا استعارہ
)(Metaphor of sinsبھی لیتے ہیں۔ مگر مذ ہبی نظریات سے متا ثر یا یہو دی اور
عیسائی علماء کی لغات اور گو گل ٹرانسلیٹر )(Google Translatorمیں اس لفظ کا تر جمہ '
مسیح ' کیا گیا ہے جو وحی کے اصل متن کے لحاظ سے با لکل غلط اور گمراہ کن ہے۔ اگر
آپ کسی بھی معیا ری غیر جا نب دار لغت ) (dictionaryمیں اس کے معانی د یکھیں گے تو
آپ کو وہی معا نی ملیں گے جو یہاں پر درج کئے گئے ہیں۔ اس کے عالوہ غور کر نے کی
بات یہ بھی ہے کہ ا نجیل کا باب نہم عبرا نیوں ' عہد ' )' ، (Covenantتجدید ِ عہد ' اور پیدا ئش ِ
نو کے عنوا نات پر مشتمل ہے ۔ عہد کے اس پس منظر میں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا سے
عیسی علیہ السالم اپنے سرٰ لوگ عہد کریں اور ا ْن کی بد عہدی کا بوجھ خدا کے نبی حضرت
پر اْٹھا ئے پھریں اور با اآل خر روز ِ قیا مت ا پنے سب امتیوں کے گناہ معاف کرا کے انہیں
ἅπαξآتا ہے جس ہپیکس ' جہنم کے عذا ب سے نجات دال دیں ۔ اس کے بعد اگال لفظ '
کا مطلب ' باری)'(turnہے کئی لغات اس کا ترجمہ ' ایک بار )' (onceبھی کرتی ہیں۔ پھر لفظ '
پروس فیرو ' προσενεχθεὶςہےجس کا مطلب ' النا ،ساتھ لے جا نا ،دیا جانا اور سلوک
)(Dealکر نا ہو تا ہے ۔ اس کے بعد حر ف ِ جر ' آ ئس ' ειςآ تا ہے جس کا مطلب نتیجتا ً وقت
کے لحا ظ سے کسی جگہ یا کسی مقام پر پہنچنا ہو تا ہے۔پھر ' ھو' τοآ تا ہے جو کسی خا ص
چیز ،ا کیلی عورت اور اکیلے مرد کی ضمیر کے طور پر استعمال ہو تا ہے۔ پھر اگال لفظ ' پو
لوس ' πολλῶνہے جس کا مطلب بہت سا ،کثیر ،لمبا ،لمبا عر صہ اور اکٹھا (many,
)much, abundant, long , long time or altogetherہوتا ہے۔ اس کے بعد فعل 'انا فیرو'
ἀνενεγκεῖνآتا ہےجس کا مطلب اْٹھا نا ،قبول کر نا اور آ گے لے کر جا نا ہے۔اس کے بعد کا
لفظ ' ہمر تیہ ' ἁμαρτίαςہے جس کا مطلب منزل سے بھٹک جا نا ،غلطی اور گناہ کا سر ذد
ہو ناہے۔پھر حرف ِ جر ' ائیک ' ἐκآ تا ہے جس کا مطلب کسی عمل یا تحریک کا نقط ِ آ غاز
یا ابتداء ہے۔جو براہ ِ راست یا با الوا سطہ کسی عمل کی وجو ہات ،جگہ اور وقت کے ساتھ مشروط
ہے۔پھر ' ڈیو ٹرس ‘ کا لفظ δευτέρουدوبارہ ،دوسری جگہ اور دوسر ے مر تبے کے
توا تر اور بار بار کے معانی میں آ تا ہے۔اس کے بعد لفظ ' خو ریس’ χωρὶςآتا ہے جو اگر
اسم ہو تو 'ایک جگہ پر مگر علیحدہ علیحدہ ' کا مطلب دیتا ہے۔ لیکن یہ لفظ اکثر حرف ِ جر کے
طور پر استعما ل ہوا ہے جو 'کی طرف سے ،کے عالوہ ،خود کی طرف سے ،کے بغیر ' کے
معانی میں آ تا ہے۔اس کے بعد 'ہمار تیہ ' ἁμαρτίαςکا لفظ آ تا ہے جو کسی گناہ یا جرم کے منا
سب خال صے کے طور پر استعمال ہو تاہے۔پھر ز مان ِہ مستقبل میں تیسرے واحد (third person
)singularشخص کے لئے فعل ' اوپتن او ما ہی ' οφθησεταιآ تاہےجس کا مطلب ' ظا ہر ،
خود ظا ہر ہونا اور دیکھنا ہو تا ہے۔ چو نکہ یہ فعل مجہولی )(passiveحالت میں ہے اس لئے
دکھا یا جا نا اور ظا ہر کیا جا نا کے معا نی میں آ ئے گا۔اس کے ساتھ اسم ِ ضمیر ' ھو ' τοις
اْس عورت ،اْس آ دمی یا اس چیز کے لئے آ یا ہے۔اس کے بعد واحد مذکر کی ذاتی ضمیر 'او
توز' αυτονہے جو ' خود ' کے معانی میں معکوس ضمیر بن کے تیسرے شخص یا دیگر افراد
کو مخا طب کر تی ہے ۔پھر ' اپیک دیکھ اوماہی ' απεκδεχομενοιςوہ فعل ہے جو کسی با
ت کی مکمل توقع رکھنے کے لئے استعمال کیا جا تا ہے۔پھر حرف جر ' آئس ' ειςدو با رہ آ تا ہے
جو کسی عمل کے نتیجے میں کسی گھڑی یا مقام پر پہنچنے یا مقصد کی نشان دہی کر تا ہے۔آ
خری لفظ 'سو تیر یا ' σωτηριανآ تا ہے جو اسم ہے اور یہ جسمانی یا اخالقی طور پر بچا
نے)(Rescueیا امن ،سالمتی اور حفا ظت کی فرا ہمی ،صحت یا مصیبت سے نجات پا نے
) (Salvationکے لئے استعمال ہو تا ہے۔
قا رین ِ کرام عبرا نیو کی اس آ یت ۹:۲۷کے اصل متن سے ممکنہ صحیح ترجمہ مندر جہ ذیل
ہے جو کلیسا والوں نے صرف اپنے نظر یات کی بقا ء کے لئے آج تک لوگوں کی نگا ہوں سے
او جھل کر رکھا تھا۔
اس طرح ایک بار پھر وہ گنا ہوں میں لت پت شخص اپنے تمام گنا ہوں کا بو جھ اٹھا ئے اپنے
اسی مقام پر واپس جا تا ہے ( عو رت کے رحم کی رطو بت میں )جہاں سے وہ گنا ہوں کے بغیر
شروع میں چال تھا۔ وہ اور دیگر افراد جو نجات کی امید لگائے بیٹے ہیں اپنی بد اعمالیو ں کا
نتیجہ خود دیکھ لیں گے ۔(عبرا نیو ۹:۲۷کے اصل متن سے خود کیا ہوا تر جمہ)
اس کو ایسے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ " عورت کے رحم سے ایک بار نکال ہوا شخص جب
موت کے بعد واپس آ تا ہے تو وہ اپنے تمام گنا ہوں سمیت دو بارہ وہیں بھیج دیا جا تا ہے
جہاں سے وہ نکال تھا۔ پھر جو لوگ اپنی غلط کا ریوں کے نتا ئج سے بچ نکلنے کی توقع رکھتے
ہیں وہ اپنے ساتھ ہو نے واال سلوک خو د اپنی آ نکھوں سے دیکھ لیں گے"۔(عبرا نیو ۹:۲۷کے
اصل متن سے خود کیا ہوا تر جمہ)
رین کرام فیصلہ آ پ خود کر سکتے ہیں کہ وحی کا اصل متن کیا بیان کر ر ہا ہے اور
قا ِ
عیسائیوں کے بھٹکے ہوئے علما ء اس کا تر جمہ اور تشریح کیا کر رہے ہیں؟ عبرا نیو
عیسی علیہ السالم پہلی بار سب
ٰ ۹:۲۸کے اصل متن کے الفا ظ ہر گز یہ نہیں کہتے کہ ' حضرت
کے گنا ہوں کا بو جھ اٌٹھا کے اس دنیا سے رخصت ہوئے اور دوسری بار قیا مت کے دن ایک ہی
بار سب سو تے ہوئے ْمر دوں کو قبروں سے نکال کر زندہ کر کے نجات دالنے آئیں گے' بلکہ
یہاں تو موت کے بعد دو با رہ زند گی اسی طرح ماں کے پیٹ سے شروع ہو نے کا بیان ہے
جیسے پہلے ہوئی تھی۔
کلیسا والے ہی کیوں مسجد والے بھی کم نہیں وہ بھی اپنی آ خرت کلیسا والوں کے د ئیے
ہوئے آ ئینے میں ہی دیکھتے ہیں۔وہ بھی اس بات سے نہیں ڈرتے کہ مر تے ہی حساب کتاب
شروع ہو جائے گا اور با وجود قر آن کی اس تنبیہ کے کہ ستّر گز کی ر ّسی (اگلی زند گی کی
عمر) مجر موں کے گلے میں باندھ کے انہیں واپسی ڈاک سے سید ھا جہنم رسید کیا جائے گا۔ ہم
ا بھی تک اسی خوش فہمی میں مبتال ہیں کہ موت کے بعد بغیر حسا ب کتاب دئیے غیر مختل نیند
کے مزے لْو ٹیں گے جس میں وقت کا احساس ہی با قی نہیں رہے گا۔پھر قیامت کے دن زندہ ہو
کے جنت الفر دوس میں قیام فر مائیں گے۔ اچھا افسا نہ) (Fictionہےمگر اس تراشیدہ فسا نے نے
امت ِ مسلمہ کی کمر توڑ کے رکھ دی۔عمل کی جد و جہد نا پید ہو گئی۔مستقبل ( آخرت) بنا نے کی ا ْ
لو العزمی جو قر آن دیتا ہے وہ ختم ہو گئی ۔خوف ِ خدا اور آ خرت کا ڈر جاتا ر ہا کیوں کہ آ خرت
کو ہم نے اپنے ایمان سے نکال کے باہر پھینک دیاجس کی وجہ سے ہم سب قو موں سے پیچھے
اور د نیا کی نظروں م یں ذلیل و خوار ہو کے رہ گئے ۔لفظ ایمان پر بہت زور دیا جاتا ہے اس کا
جرا تماخذ بھی امن سے لیا جا تاہے مگر امن پھر بھی دکھا ئی نہیں دیتا ۔کیوں کہ کسی میں اتنی ّ
ہی نہیں کہ ادھر ادھر کی با توں کی بجا ئے قر آن کھول کے لوگوں کو یہ بتا دے کہ اصل ایما ن
ہے کیا ؟ کیو نکہ آخرت کے قر آنی نظر ئیے پر ایمان الئے بغیر لنگڑے لو لے ایمان کا کو ئی فا
ئدہ نہیں ۔ اگر اس بات پر یقین ِ کامل ہو جائے کہ جو آج کرو گے وہ کئی صد یوں بعد نہیں بلکہ
کل ہی آ نے والی اگلی زند گی میں بھر نا پڑے گاتو ہما را ایمان بھی کا مل ہو جائے گا اور بہت
سی برا ئیوں کا خو د بخود خا تمہ بھی ہو جائےگا ۔اگر یہ سب نہیں کیا جاتا تو محظ وقت ضا ئع کر
نے والی بات ہے خواہ وہ کتا بیں لکھ کر کیا جائے یا مر شدوں کے خیا الت کے پر چا ر واال
درس ِ قر آن دے کر کیا جائے۔ان کا موں سے کوئی تبدیلی نہیں آ نے والی بلکہ اس کام کو نیک کام
لی کے حضو ر ضرور جواب دہ ہوں گے کہ انہوں نے لو سمجھ کر کر نے والے لو گ ہللا تعا ٰ
سچا ئی پر پردہ ڈاال؟ کیوں لوگوں کو نہیں بتا یا کہ قر آن کیا
گوں کو مزید گمر ہ کیوں کیا؟ کیوں ّ
کہتا ہے؟
ڈا کٹر کا شف خا ن